عنوان: ’میں جو بھی بیوی کروں گا اسے طلاق ‘ کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے نکاح سے پہلے اللہ سے معافی مانگتے وقت زبان سے الفاظ ادا کرکے یہ وعدہ کیا کہ اگر میں نے پہر زنا کیا تو میں جو بہی بیوی کروں گا اسے طلاق ہوگی،یا یوں کہا کہ میں جب بہی بیوی کروں گا اسے طلاق ہوگی،ان دونوں جملوں میں شک ہے ، لہذا، دونوں صورتوں کا حکم شرعی سے آگاہ کریں۔اب یہ بات تو واضح ہے کہ زید نے نکاح سے پہلے زنا کیا ہے اور پہر نکاح بہی کیا ہے تو نکاح کرتے ہی زید پر ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے ، مگر اب درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں؛
1.کیا دونوں جملوں کا ہی مطلب ہے ؟2. اگر الگ الگ حکم ہو تو وضاحت فرمائیں .3 .اب اس مطلقہ بیوی سے خود تجدید نکاح کریں یا نکاح فضولی؟.4.اگر تجدید نکاح کی ضرورت ہو اور نکاح فضولی کریں تو کیا نکاح صحیح ہوگا؟.5.کیا یہ جملے نیت کے محتاج ہوسکتے ہیں،مطلب اگر نیت ہر نکاح پر طلاق کی ہو اور جملے سے پہلی نکاح کا مطلب نکلے تو کس پر عمل کریں؟ علمائے کرام ہر جملے پر غور کرکے جواب ارسال کریں تاکہ شک و شبہ نہ ہو اور جواب جلدی ای میل کرکے مشکور فرمائیں۔
جواب نمبر: 15018501-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 740-737/B=7/1438
دونوں جملوں کا ایک ہی مطلب ہے۔ یہ جملہ شریعت کی نگاہ میں قسم ہے اگر زید نے نکاح سے پہلے زنا کیا اور پھر کسی عورت سے نکاح کیا تو نکاح کرتے ہی اس عورت پر طلاق واقع ہوگئی، اب اگر زید پھر اسی عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو نکاح کرسکتا ہے کیونکہ صورت مذکورہ میں طلاق بائن واقع ہوئی ہے اور اور عورت چونکہ غیر مدخول بہا ہے تو اس پر عدت بھی واجب نہیں۔ دوبارہ نکاح کرنے کے بعد پھر طلاق واقع نہ ہوئی کیونکہ پہلی قسم پہلی مرتبہ میں پوری ہوچکی ہے، یہاں نکاح فضولی کی ضرورت نہیں ہے۔ صریح جملوں میں نیت کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوبارہ نکاح کے بعد دونوں میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند