معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 62434
جواب نمبر: 62434
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 219-292/N=3/1437-U (۱-۳) صورت مسئولہ میں اگر شخص مذکور نے یہ الفاظ: ”میں کبھی بھی تم سے نکاح کروں تو اسی وقت مجھ پر تین دفعہ طلاق ہو“، میسج میں تعلیق طلاق کی نیت سے لکھے اور ”مجھ پر تین دفعہ طلاق“ کی تعبیر اس کے عرف ومحاورہ میں طلاق کے لیے استعمال ہوتی ہے تو لکھنے کے ساتھ ہی یہ قسم منعقد ہوگئی؛ کیونکہ اس تعلیق میں بھیجنے یا پہنچنے کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی ہے، پس یہ شخص جب کبھی اس لڑی سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی اس پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، وہ لڑکی حرمت غلیظہ کے ساتھ اس پر حرام ہوجائے گی اور آئندہ حلالہ شرعی سے پہلے دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح کی شرعاً کوئی صورت نہ ہوگی، البتہ ایک بار طلاق کی شرط پائے جانے پر قسم ختم ہوجائے گی؛ لہٰذا یہ شخص اگرحلالہ کے بعد اسی لڑکی سے دوبارہ نکاح کرے گا تو اب اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ اور اگر یہ شخص پہلی مرتبہ خود نکاح نہ کرے؛ بلکہ کوئی شخص اس کی جانب سے فضولی بن کر اس کا اس لڑکی سے نکاح کرادے، اس کے بعد اس شخص کو جب معلوم ہو تو یہ زبان سے نکاح کی اجازت نہ دے؛ بلکہ خاموش رہے اور لڑکی کے پاس مکمل مہر یا اس کا کچھ حصہ بھیج دے اور وہ بھیجا ہوا لڑکی کے پاس پہنچ جائے یا یہ شخص کسی کاغذ پر نکاح کی اجازت لکھ دے تو یہ نکاح ہوجائے گا اور اس لڑکی پر کوئی طلاق بھی واقع نہ ہوگی، قال فی الدر (مع الرد، أول کتاب الطلاق ۴: ۴۵۶ط مکتبة زکریا دیوبند): وإن کانت مستبینة لکنھا غیر مرسومة إن نوی الطلاق یقع وإلا لا، وإن کانت مرسومة یقع الطلاق نوی أو لم ینو، ثم المرسومة لا تخلو بأن کتب: أما بعد فأنت طالق فکما کتب ھذا یقع الطلاق وتلزمھا العدة من وقت الکتابة، وإن علق طلاقھا بمجییٴ الکتاب بأن کتب إذا جاء ک کتابي فأنت طالق فجاء ھا الکتاب فقرأتہ أو لم تقرأ یقع الطلاق کذا فی الخلاصة ط اھ، وقال فی ۵: ۶۷۲ منہ: حلف لا یتزوج فزوجہ فضولي فأجاز بالقول حنث وبالفعل ومنہ الکتابة خلافاً لابن سماعة لا یحنث اھ، وانظر الرد أیضاً۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند