• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 608299

    عنوان:

    تین مرتبہ کپڑے دھونے کے بعد اگر منی کے اثرات زائل نہ ہوں،انگلی یا دانتوں سے نکلنے والا خون نگلنا ،کتوں کو مارنا

    سوال:

    سوال : 1۔اگر احتلام کے بعد کپڑے کو نل کے نیچے لگا کر منی ۳ تین بار دھو کراچھی طرح نچوڑی جائے (اور پھربھی منی کی چکناہت یا بُو باقی رہے ) تو کپڑا پاک ہوجائے گا یا نہیں؟اور جسم پر جہاں منی لگی ہو تین بار پانی بہانے کے بعد(بھی منی کی چکناہت یا بُو باقی رہے )تو جسم پاک ہوجائے گا یا نہیں؟

    2۔اکثر لوگ اگلی سے خون نکلتا ہے ں تو اسے منہ میں لیکر چوستے ہیں، اور دانتوں سے جو خون نکلتا ہے وہ اگر کوئی گھونٹ لیا جائے ،ان دونوں کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے ؟

    3۔عموماصبح فجر کی نماز کے لیے جاتے وقت اور کبھی دوسری نمازوں میں یا ویسے گلی میں جب کھڑے ہوتو،محلے کی گلی کے آوارہ پلے ہوئے کتے قمیص یا شلوار اپنے منہ میں پکڑ کر کھینچتے ہے ،تو کیا اس سے کپڑے ناپاک ہو جاتے ہے یا نہیں؟ اور ان کپڑو ں میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ ان کتوں کو زہر دے کر (یا گولی مار کریا کوئی اور طریقے سے )مار سکتے ہے یا نہیں کوئی گناہ تو نہ ہوگا؟(گلی کے بچے اور مستورات کے پیچھے اکثر یہ کتے لگ جاتے ہے اور اکثر لوگوں کے سودے کی ٹھیلیاں پھاڑ دیتے ہے ) ایک دو افراد جو ان کو کچھ کھلا کر پورے محلیں کو پریشان کرتے ہے وہ یہ سوچتے ہے ہم ثواب کا کام کر رہے ہیں ان کے مطلق شریعت کیا کہتی ہے ؟

    جواب نمبر: 608299

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:683-178/TH-Mulhaqa=5/1443

     (۱) ناپاک کپڑے کو دھونے کا طریقہ یہ ہے کہ پاک پانی کے ذریعہ کپڑا تین مرتبہ دھوکر ہرمرتبہ کپڑے کو نچوڑا جائے اور تیسری مرتبہ نچوڑنے میں اپنی پوری طاقت استعمال کی جائے کہ مذکورہ کپڑے سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے ، یا جاری پانی میں اتنی دیر تک اچھی طرح کپڑے کو دھویا جائے کہ نجاست زائل ہونے کا اطمینان ہوجائے تو کپڑا پاک ہوجائے گا، نیز کپڑے کو مذکورہ طریقے سے تین مرتبہ اچھی طرح سے دھونے کے بعد بھی اگر نجاست کا اثر مثلاً رنگ، بو، باقی رہے تو وہ کپڑا شرعی طور پاک ہے ، اس کے اثر کو زائل کرنا شرعاً لازم نہیں ہے ؛البتہ چکناہٹ کو ختم کرنا ضروری ہے ؛کیونکہ چکناہٹ کے باقی رہنے کا مطلب یہ ہے کہ نجاست کا عین باقی ہے ۔بدن سے منی کی چکناہٹ کو زائل کرنا ضروری ہے ،تین مرتبہ بدن پر پانی بہانے کے بعد بھی اگر منی کی چکناہٹ باقی رہے تو جسم پاک نہیں ہوگا۔(۲)جسم سے نکلنے والا خون ناپاک و نجس ہے ؛لہذا انگلی سے نکلنے والے خون کو چوسنا یا دانتوں سے نکلنے والے خون کو نگلناناجائز ہے اس سے اجتناب کرنا لازم ہے ۔(۳)صورت ِ مسئولہ میں اگر کتوں کے لعاب کی تری کپڑوں پر ظاہر ہوجائے تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے ،اگر لعاب کی تری ایک درہم کی مقدار یا اس سے زیادہ ہو تو اسے تین مرتبہ دھونا ضروری ہوگا ،دھوئے بغیر نماز درست نہیں ہوگی ۔ کاٹنے والے یا ایذاء دینے والے کتے کو مارنا جائز ہے ، البتہ موذی کتے کو مارنے کے لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے ، جس میں کم سے کم تکلیف ہو، لہذا ایسا زہر دے کر مارنا بھی درست ہے ، جس سے جان نکلنے میں زیادہ تکلیف نہ ہو۔

    "وإزالتہا إن کانت مرئیة بإزالة عینہا وأثرہا إن کانت شیئا یزول أثرہ ولا یعتبر فیہ العدد. کذا فی المحیط فلو زالت عینہا بمرة اکتفی بہا ولو لم تزل بثلاثة تغسل إلی أن تزول، کذا فی السراجیة. وإن کانت شیئا لا یزول أثرہ إلا بمشقة بأن یحتاج فی إزالتہ إلی شیء آخر سوی الماء کالصابون لا یکلف بإزالتہ. ہکذا فی التبیین وکذا لا یکلف بالماء المغلی بالنار. ہکذا فی السراج الوہاج ... و یشترط العصر فی کل مرة ویبالغ فی المرة الثالثة."(الفتاوی الھندیة ۱/۹۶ الباب الثالث فی المیاہ ، ط:اتحاد دیوبند)''وسؤر الکلب والخنزیر وسباع البہائم نجس. کذا فی الکنز''.( الفتاوی الہندیة:۱/۷۶باب السابع فی النجاسة وأحکامہا،، ط:اتحاد دیوبند)'' الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا یتنجس ما لم یظہر فیہ أثر البلل راضیاً کان أو غضبان۔ کذا فی منیة المصلی۔ قال فی الصیرفیة: ہو المختار۔ کذا فی شرحہا لإبراہیم الحلبی''.( الفتاوی الہندیة:۱/۱۰۳ الباب السابع فی النجاسة وأحکامہا،، ط:اتحاد دیوبند )وَعَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَمْسٌ فَوَاسِقُ یُقْتَلْنَ فِی الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْحَیَّةُ وَالْغُرَابُ الْأَبْقَعُ وَالْفَأْرَةُ وَالْکَلْبُ الْعَقُورُ وَالْحُدَیَّا( صحیح مسلم : کتاب الحج باب ما یندب للمحرم رقم الحدیث:۱۱۹۸) عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: ثِنْتَانِ حَفِظْتُہُمَا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللہَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ، فَلْیُرِحْ ذَبِیحَتَہُ،( صحیح مسلم : کتاب :الصید والذبائح ،ومایوکل من الحیوان ،باب الامر باحسان الذبح ،رقم الحدیث :۱۹۵۵)"(وجاز قتل ما یضر منہا ککلب عقور وہرة) تضر (ویذبحہا) أی الہرة (ذبحًا) ولایضر بہا؛ لأنہ لایفید، ولایحرقہا وفی المبتغی: یکرہ إحراق جراد وقمل وعقرب،(قولہ: وہرة تضر) کما إذا کانت تأکل الحمام والدجاج زیلعی (قولہ ویذبحہا) الظاہر أن الکلب مثلہا تأمل (قولہ یکرہ إحراق جراد) أی تحریما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحیة."(الدر مع الدر :۱۰/۴۸۲ ،مسائل شتی،ط :زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند