عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 63971
جواب نمبر: 63971
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 536-538/N=6/1437 زندگی میں نمازوں کا فدیہ ادا کرنا صحیح ومعتبر نہیں،فدیہ ادا نہ ہوگا؛بلکہ جو نمازیں رہ جائیں گی،ان کے فدیہ کی وصیت واجب وضروری رہے گی ؛لہٰذا آپ وصیت والی صورت ہی اختیار کریں،البتہ اطمینان کے لیے نماز وروزے کے پابند دوست واحباب میں سے دو چار لوگوں کو گواہ اور وصیت کی تنفیذ کا ذمہ دار بنادیں تاکہ وہ اپنی نگرانی میں آپ کے وارثین سے وصیت کی تنفیذ کرادیں ،اور اگر خدانخواستہ ان سب لوگوں نے کوتاہی کی ،لیکن آپ کا تہائی ترکہ تمام نمازوں کے فدیہ کے لیے کافی تھا تو آپ آخرت میں انشاء اللہ گنہگار نہ ہوں گے،البتہ آپ اپنی زندگی میں جو قضا نمازیں بآسانی ادا کرسکتے ہوں،انھیں ضرور اداکرلیں،ان میں کوتاہی نہ کریں، ولو فدی عن صلاتہ في مرضہ لا یصح الخ(در مختار مع شامی ۲: ۵۳۵، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،وقولہ:”ولو فدی عن صلاتہ في مرضہ لا یصح “فی التاترخانیة عن التتمة:سئل الحسن بن علي فی الفدیةعن الصلاة في مرض الموت ھل تجوز؟ فقال: لا، وسئل أبو یوسف عن الشیخ الفاني ھل تجب علیہ الفدیة عن الصلوات کما تجب علیہ عن الصوم وھو حي؟ فقال: لا اھ وفی القنیة:ولا فدیة فی الصلاة حالة الحیاة بخلاف الصوم اھ۔الخ(شامی)،قولہ:” لا یصح“:فیجب علیہ الوصیة(حاشیة الطحطاوی علی الدر ۱: ۳۰۸، مطبوعہ: مکتبہ اتحاد دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند