• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 62137

    عنوان: فجر کی نماز․․ اگر سورج ساڑھے سات بجے نکلے اور میں سواسات بجے فجر کی نماز پڑھوں تو کیا یہ درست ہے؟کیا یہ نمازقضا ہوگی یا مکروہ؟اگر سوج ساڑھے سات بجے نکلے تو فجر کی نماز کے لیے قضا اور مکروہ وقت کیا ہوگا؟

    سوال: (۱) فجر کی نماز․․ اگر سورج ساڑھے سات بجے نکلے اور میں سواسات بجے فجر کی نماز پڑھوں تو کیا یہ درست ہے؟کیا یہ نمازقضا ہوگی یا مکروہ؟اگر سوج ساڑھے سات بجے نکلے تو فجر کی نماز کے لیے قضا اور مکروہ وقت کیا ہوگا؟ (۲) ظہر کی نماز کے لیے قضا اور مکروہ وقت کیا ہے؟اگر ظہر دیڑ ھ بجے شروع ہواور عصر ساڑھے پانچ بجے شروع ہو تو قضا اور مکروہ وقت کیا ہوگا؟ (۳) اگر عصر کا وقت ساڑھے پانچ بجے شروع ہو اور مغرب ساڑھے بجے شروع ہو تو عصر کے لیے قضا اور مکروہ وقت کیا ہوگا؟ (۴) اگر مغرب کا وقت ساڑھے سات بجے شروع ہو اور عشاء کا وقت نو بجے شروع ہو مغر کے لیے قضا اور مکروہ وقت کیا ہوگا؟ (۵) اگر عشاء کا وقت نو بجے شروع ہو اور فجر کا وقت ساڑھے پانچ بجے شروع ہو کیا میں عشاء کی نماز نو سے چار بجے کے درمیا ن پڑھ سکتاہوں؟جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 62137

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 109-156/Sn=3/1437-U آپ کے سوالات کے جوابات سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ گھنٹہ اور منٹ کے اعتبار سے اوقاتِ نماز کی مکمل حتمی تعیین (کہ اتنے بجے سے اتنے بجے تک مستحب وقت ہے اور اتنے سے اتنے تک مکروہ وغیرہ) تو مقامی لوگ ہی کرسکتے ہیں؛ اس لیے کہ اختلافِ زمان ومکان سے اوقات میں تفاوت ہوتا رہتا ہے، قرآن وحدیث میں بہ طور علامت کچھ چیزیں بتائی گئی ہیں جن کی مدد سے ہرجگہ اوقاتِ نماز کی تحدید کی جاسکتی ہے، فقہاء نے بھی صرف انہی علامتوں کو واضح کرکے بیان کیا باقی گھنٹہ اور منٹ کے اعتبار سے یقین مقامی لوگوں کے مشاہدے پر چھڑدیا، فقہاء کے ذکر کرہ اصول وقواعد کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں: (۱) نمازِ فجر کا وقت صبح صادق سے طلوع آفتاب تک رہتا ہے اور طلوع آفتاب کی ابتداء سے لے کر اس کے ایک ”نیزہ“ کے بہ قدر بلند ہونے تک مکروہ وقت رہتا ہے، اس دوران نماز پڑھنے سے نماز ادا نہ ہوگی، اس ”مکروہ وقت“ کی تعیین بعض کتب فتاوی میں ۱۲ یا ۱۵ منٹ کے ذریعے کی گئی ہے۔ (فتاوی رحیمیہ: ۲/ ۳۶۸،ط: احسان) (۲) ظہر کا وقت زوال کے بعد سے لے کر ہرچیز کا سایہ دو مثل ہونے تک رہتا ہے، نمازِ ظہر کے سلسلے میں فقہاء نے کسی مکروہ وقت کا ذکر نہیں کیا؛ البتہ موسم گرما میں تاخیر سے (یعنی جب سورج کی تپش کم ہوجائے) اور موسم سرما میں جلد ی پڑھنا اولیٰ اور بہتر بتلایا ہے۔ (۳) نمازِ عصر کا وقت مثلین سے غروبِ آفتاب تک رہتا ہے؛ البتہ ”اصفرار شمس“ (سورج کی ٹکیہ کے زرد ہونے) کے وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے اور جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے عصر کا وقت ختم ہوجاتا ہے غروب کے بعد مغرب کا وقت شروع ہوجاتا ہے، اس وقت اگر عصر کی نماز پڑھی جائے تو وہ قضا شمار ہوگی۔ (۴) نمازِ مغرب کا وقت غروبِ آفتاب کے بعد سے ”شفق احمر“ (آسمان کے افق پر سرخی) نمودار ہونے تک رہتا ہے؛ البتہ مغرب کی نماز کو تاروں کے خوب روشن ہونے تک موخر کرنا مکروہ ہے، اور شفقِ احمر نمودار ہونے کے بعد اگر مغرب کی نماز ادا کی جائے تو وہ قضا ہوگی۔ (۵) عشا کا وقت ”شفق احمر“ کے بعد سے صبح صادق تک رہتا ہے؛ البتہ تہائی رات تک موٴخر کرنا مستحب ہے، آدھی رات تک مباح اور آدھی رات سے صبح صادق تک موٴخر کرنا مکروہ ہے۔ اب ان اصول کی روشنی میں مقامی اوقات اور وہاں کے شمسی نظام کو سامنے رکھ کر گھنٹہ اور منٹ کے ذریعے تحدید کرلیں۔ متعلق فقہی عبارات درج ذیل ہیں: وقت الفجر من الصبح الصادق إلی طلوع الشمس․․․ ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند احمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک، فإنہ یجوز أداوٴہ عند الغروب (ہندیة: ۱/ ۸-۱۰۷، زکریا) ․․․ مالم ترفع الشمس قدر رمح فہي في حکم الطلوع․ (شامی: ۲/ ۳۱-۳۰، زکریا) ووقت الظہر: من الزوال إلی بلوغ الظل مثلیة سوی الفيء․․․ ویستحب تاخیر الظہر في الصیف وتعجیلہ فی الشتاء سواء کان یصلی الظہر وحدہ أو بجماعة (ہندیة: ۱/۸-۱۰۷،زکریا) وتأخیر ظہر الصیف بحیث یمشی فی الظل (الدر مع الشامي: ۲/ ۲۴) ووقت العصر من صیرورة الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس․․․ ویستحب تأخیر العصر في کل زمان ما لم تتغیر الشمس،و العبرة لتغیر القرص لا لتغیر الضوء (ہندیة: ۱/۱۰۸-۱۰۷، زکریا) ووقت المغرب منہ إلی غیبوبة الشفق وہو الحمرة عندہما وبہ یفتی (أیضًا) وأخر المغرب إلی اشتباک النجوم أي کثرتہا، کرہ، أي التاخیر لا الفعل لأنہ مامور (الدر مع الشامي: ۲/۲۷، زکریا) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح․․․ وکذا أي یستحب تأخیر العشاء إلی ثلث اللیل والوتر إلی آخر اللیل لمن یثق بالانتباہ، ومن لم یثق أوتر قبل النوم (ہندیة: ۱/ ۱۰۸) والمستحب تأخیر عشاء إلی ثلث اللیل فإن أخرہا إلی ما زاد علی النصف کرہ لتقلیل الجماعة، أما إلیہ فمباح (الدر مع الشامي: ۲/ ۲۶، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند