• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 610630

    عنوان:

    ظہر كی سنت قبلیہ بعد میں چار پڑھے یا دو؟

    سوال:

    سوال : ایك مسئلہ سے متعلق آپ حضرات كی رائے مطلوب تھی، مسئلہ درجِ ذیل ہے: ”معارف الحدیث“ ۳/۱۹۸، بعنوان: دن رات كی مؤكد سنتیں، رقم الحدیث: ۱۸۱، كے تحت مولانا نعمانی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”تمام حدیثوں كو سامنے ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ رسول ﷺ ظہر سے پہلے اكثر وبیشتر چار ركعات پڑھتے تھے، اور كبھی كبھی صرف دو بھی پڑھتے تھے، بہر حال دونوں عمل ہی آپ ﷺ سے ثابت ہیں، اور جس پر بھی عمل كیا جائے سنت ادا ہو جائے گی“۔ اس كے بعد فرماتے ہیں: ”اس ناچیز نے بعض اہلِ علم كو دیكھا ہے كہ وہ ظہر سے پہلے اكثر وبیشتر چار ركعات سنت پڑھتے ہیں، لیكن جب دیكھتے ہیں كہ جماعت كا وقت قریب ہے، تو صرف دو ركعات پر اكتفا كرتے ہیں“۔ اس ضمن میں آنجناب سے یہ معلوم كرنا كرتا تھا كہ جب دونوں طریقے درست ہیں، تو اگر كوئی شخص جماعت كا وقت قریب ہونے كی صورت میں صرف دو ركعات پر اكتفاكرلے، اور اپنے دیگر رفقاء و معتقدین كو بھی بتادے ، تو آیا اس كی گنجائش ہے؟ نیز دو ركعات جب ایك بار سنت كی نیت سے ادا كرلی جائیں، تو پھر فرائض كے بعد چار سننِ قبلیہ لوٹانے كی ضرورت ہوگی یا نہیں؟ اس سلسلے میں راہ نمائی فرماكر عند اللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 610630

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 937-214T/M=09/1443

     ظہر كی سنت قبلیہ كے متعلق اختلاف ہے‏، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اور سنن مؤكدہ دس ركعتیں یا بارہ ركعتیں ہیں اختلاف اس میں ہے كہ ظہر سے پہلے دو سنتیں ہیں یا چار؟ دونوں باتیں صحیح روایات سے ثابت ہیں۔ پس چار پڑھے یہی كامل سنت ہے اور موقعہ نہ ہوتو دو ہی پڑھ لے‘‘۔ (دیكھئے رحمۃ اللہ الواسعۃ: 3/475) اور فرض كے بعد چار ركعت سنت ظہر پڑھ لینی چاہئے‏، فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے: سوال: زید ظہر كی سنت پڑھ رہا تھا ابھی ایك ركعت پڑھی تھی كہ جماعت كھڑی ہوگئی‏، اس نے دو ركعت پوری پڑھ كر سلام پھیر دیا تو اس كو فرضوں كے بعد دو ركعت پڑھنی چاہئے یا چار؟ الجواب: اس كو بعد فرض كے چار ركعت سنت ظہر كی پڑھنی چاہئے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند: 4/248‏، طبع جدید)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند