• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 175142

    عنوان: كن نمازوں كی قضا كی جائے گی نیز سفر كی حالت میں كن نمازوں كا ادا كرنا ضروری ہے؟

    سوال: (۱) قضا نماز جو ہوتی ہے کیا اس کی صرف فرض نماز ادا کریں ؟ (۲) دوسر ا سوال یہ ہے کہ سفری نمازمیں فرض ادا کریں ، نوافل اورسنت کا کیا حکم ہے؟ (۳) وتر میں تیسری رکعت میں دعا قنوت بھول جائیں تو کیا التحیات کے بعد پڑھ سکتے ہیں ؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 175142

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 352-51T/L=04/1441

    (۱) جی ہاں! صرف فرائض اور واجب نماز کی قضا کا حکم ہے، سنن و نوافل کے قضا نہیں ہے؛ البتہ جس دن کی فجر قضا ہوئی ہو، اگر وہ اسی دن طلوع آفتاب کے بعد زوال سے پہلے فجر کی قضا کی جائے تو قضا کرنے والے کو چاہئے کہ سنت اور فرض دونوں کی قضا کرے۔ لاتقضی سنة الفجر عند الشیخین إلا حال کونہ تبعاً للفرض بعد الطلوع قبل الزوال (مجمع الأنہر: ۲۲۱،۱)

    (۲) مسافر اگر کسی جگہ اطمینان کے ساتھ مقیم ہو، اور اسے سفر کی جلدی نہ ہو، تو بہتر یہی ہے کہ فرائض کے ساتھ سنن موٴکدہ بھی اداء کرے، خاص کر فجر کی سنتیں پڑھنے کا زیادہ اہتمام ہونا چاہئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں سنتیں پڑھنا ثابت ہے اور اگر اطمینان کی کیفیت نہ ہو اور سفر کی جلدی ہو، تو ایسی صورت میں سنن موٴکدہ ترک کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل: ۵۱۵/۷، فتاویٰ دارالعلوم: ۴۴۵/۴) ویأتی المسافر بالسنن إن کان فی حال أمن وقرار وإلا بأن کان فی خوف وفرار لا یأتی بہا، ہو المختار؛ لأنہ ترک لعذر وقیل إلا سنة الفجر۔ (درمختار مع الشامی: ۶۱۳/۲، زکریا، الفتاویٰ الہندیة: ۱۳۹/۱) واختلفوا في ترک السنن في السفر، فقیل: الأفضل ہو الترک ترخیصاً، وقیل: الفعل تقرباً، وقال الہندواني: الفعل حال النزول، والترک حال السیر۔ (البحر الرائق کوئٹہ ۱۳۰/۲، تاتارخانیة زکریا ۴۸۹/۲رقم: ۳۰۸۳، کبیري أشرفیة ۵۴۵، مجمع الأنہر دیوبند ۲۳۹/۱) عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لاتدعوا رکعتي الفجر ولو طردتکم الخیل۔ (مسند أحمد: ۴۰۵/۲، سنن أبي داوٴد الصلاة/ باب في تخفیفہما رقم: ۱۲۵۸)

    (۳) التحیات کے بعد قنوت پڑھنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ التحیات کے سلام پھیر کر سجدہ سہو کرلیا جائے اور پھر تشہد، درود اور دعا ماثورہ پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند