• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 62342

    عنوان: کیافرمات ہیں علمائکرام اورمفتیان دین متین کہ عورت کے محاذات سے احناف کے مذہب میں مردوں کی نمازفاسدھوتی ھے توایک عورت جب صف میں کھڑی ھوتو صرف دائیں بائیں آگے پیچھے کے ایک ایک مردکی نمازفاسدہے یاصف کے اخرتک فاسدھوتی ہے ؟ اورحرمین شریفین میں کیا حکم ہے ؟

    سوال: کیافرمات ہیں علمائکرام اورمفتیان دین متین کہ عورت کے محاذات سے احناف کے مذہب میں مردوں کی نمازفاسدھوتی ھے توایک عورت جب صف میں کھڑی ھوتو صرف دائیں بائیں آگے پیچھے کے ایک ایک مردکی نمازفاسدہے یاصف کے اخرتک فاسدھوتی ہے ؟ اورحرمین شریفین میں کیا حکم ہے ؟

    جواب نمبر: 62342

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 40-40/M=2/1437-U جب ایک عورت صف میں کھڑی ہو تو درج ذیل شرائط پائی جانے کی صورت میں اس عورت کے دائیں، بائیں اور پیچھے کے ایک ایک مرد کی نماز فاسد ہوگی، پوری صف والوں کی نماز فاسد نہیں ہوگی، وہ شرائط یہ ہیں: (۱) وہ عورت مشتہاة ہو۔ (۲) مرد کی پنڈلی، ٹخنہ یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے بالمقابل پڑرہا ہو۔ (۳) یہ سامنا کم ازکم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔ (۴) یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے یعنی نماز جنازہ کا حکم یہ نہیں ہے۔ (۵) مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہوں۔ (۶) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔ (۷) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو۔ (۸) مرد نے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو وہاں نہ کھڑے ہونے کا اشارہ نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا پھر بھی عورت برابر میں کھڑی رہی تو اب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ (۹) امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔ قولہ: "وتاسع شروط المحاذاة الخ" وأولہا: المشتہاة، ثانیہا: أن یکون بالساق والکعب علی ما ذکرہ، ثالثہا: أن تکون فی أداء رکن أو قدرہ، رابعہا: أن تکون فی صلاة مطلقة، خامسہا: أن تکون فی صلاة مشترکة تحریمة، سادسہا: إتحاد المکان، سابعہا: عدم الحائل، ثامنہا: عدم الإشارة إلیہا بالتأخر․ (وتاسع شروط المحاذاة) أن یکون الإمام قد نوی إمامتہا․ (طحطاوي مع المراقي: ص: ۳۳۱، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت) وفي الخانیة: لو صلت المرأة علی الصفة والرجل أسفل منہا بجنبہا أو خلفہا إن کان یحاذی عضو من الرجل عضوًا منہا فسدت صلاتہ لوجود المحاذاة ببعض بدنہا․ اھ․ ولیس ہنا محاذاة بالساق والکعب․ (المرجع السابق: ص ۳۲۹)․ حرمین شریفین کا بھی یہی حکم ہے؛ لہٰذا وہاں پر مردوں کو چاہیے کہ نماز کی نیت باندھنے سے پہلے دائیں بائیں اور سامنے دیکھ لیں کہ کوئی عورت تو نہیں کھڑی ہے، اس کے بعد نیت باندھیں، اگر پہلے اطمینان کرکے نیت باندھ لی اور نماز کے درمیان کوئی بالغ عورت برابر میں آکر کھڑی ہونے لگے تو اسے دورانِ نماز اشارہ سے روکنے کی کوشش کریں، اگر وہ اشارہ سے رک جائے فبہا ورنہ اس اشارہ کرنے سے مرد کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی، اب اگر وہ عورت برابر میں کھڑی ہوکر نماز پڑھنے بھی لگے پھر بھی مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ خود عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ واستفید من قولہ: بعد ما شرع أنہا لو حضرت قبل شروعہ ونوی إمامتہا محاذیا لہا وقد أشار إلیہا بالتأخر تفسد صلاتہ، فالإشارة بالتأخر إنما تنفع إذا حضرت بعد الشروع ناویا إمامتہا․ قال ط: والظاہر أن الإمام لیس بقید اہ أی لو حاذت المقتدی بعد الشروع وأشار إلیہا بالتأخر ولم تتأخر فسدت صلاتہا دونہ، وینبغی أن یعد ہذا فی الشروط، بأن یقال: ولم یشر إلیہا بالتأخر إذا حضرت بعد شروعہ، وینبغی أن یکون ہذا فی المرأة البالغة، أما غیرہا فغیر مکلفة․ (شامي: ج۱ ص۵۷۶، ط: سعید)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند