• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 153851

    عنوان: اذان اور نماز سے متعلق چند مسائل

    سوال: قرآن اور حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے مخصوص جواب دے کر رہنمائی فرمائے ۔ کیا اسی اذان یا اقامت شریعت کے اعتبار سے صحیح ہے جو ایسے شخص نے دی ہو جو ؛ (۱) نہ شریعت کے مطابق داڑھی رکھتا ہواور نہ ہی نہ شریعت کے مطابق لباس پہنتا ہو، (۲) شریعت کے مطابق داڑھی تو رکھتا ہولیکن شریعت کے مطابق لباس نا پہنتا ہو، (۳) شریعت کے مطابق داڑھی نا رکھتا ہولیکن شریعت کے مطابق لباس پہنتا ہو۔ (۴) امام کے پیچھے نماز پڑھتے وقت پہلی صف میں کھڑے نمازی امام کے تکبیر کہنے سے پہلے امام کو دیکھ کر نماز کے ارکان ادا کرے تو کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ (۵) کیاجمعہ کے دن خطبہ کے بعد امام کے ممبر سے اتر کر مصلہ پر جانے سے پہلے نمازیوں کا کھڑا ہونا درست ہے ؟ (۶) امام صاحب کا نماز کے مقرر وقت سے ایک یا دو منٹ تاخیر سے نماز پڑھانے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ۔ (۷) کیا عمرہ کرنے کے بعد حج کرنا واجب ہو جاتا ہے ؟ (۸) مسجد میں کسی اعلان یا درخواست کے پرچے لگانا جس میں ہندی زبان کو پہلی زبان کے طور پر لکھا گیا ہو اور اردو کو دوسری زبان کی طور پر اس کے نیچے لکھا ہو جس میں ہندی کو بڑے الفاظ میں اور اردو کو بہت چھوٹے الفاظ میں لکھا ہو ۔ کیا ایسے پرچوں کو مسجد میں لگانا درست ہے ؟

    جواب نمبر: 153851

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1172-972/d=12/1438

    (۱) ایسے شخص کی اذان واقامت مکروہ ہے۔

    (۲) شریعت کے مطابق لباس نہ پہننے کی وضاحت فرمائیں۔

    (۳) کسی دوسرے اہل شخص کی موجودگی میں مذکور فی السوال شخص کی اذان واقامت مکروہ ہے۔

    (۴) امام کو دیکھ کر نماز کے ارکان ادا کرنا درست ہے البتہ امام صاحب کو انتقال کے ساتھ ہی (یعنی دوسرے رکن میں جانا شروع کرتے وقت ہی) تکبیر شروع کردینی چاہیے۔

    (۵) مقتدیوں کو امام کے منبر سے اترنے کا انتظار کرنے چاہیے۔

    (۶) اتفاقاً اگر امام صاحب ایک دو منٹ کی تاخیر کریں تو مصلیوں کو برداشت کرنا چاہیے، البتہ امام صاحب کو بلاعذر اس کا معمول نہیں بنانا چاہیے۔

    (۷) اگر اشہر حج (شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ کے شروع کے دنوں )میں عمرہ کرتا ہے اور حج کی ادائیگی تک کے لیے اس کے پاس نفقہ وغیرہ موجود ہے اور ٹھہرنے میں کوئی قانونی مجبوری بھی نہیں ہے تو اس پر حج فرض ہوجائے گا اب وہ حج ا دا کرکے واپس آئے، ورنہ پھر استطاعت کے بعد ہی اس پر حج فرض ہوگا۔

    (۸) ہندی زبان دیگر زبانوں کی طرح ایک زبان ہے جس کو دین کی بات پہنچانے کے لیے اعلان وغیرہ میں استعمال کرکے مسجد میں لگانا مباح ہے۔ لہٰذا جہاں ہندی زبان کے جاننے والے ہوں وہاں ہندی میں اعلان لگانے میں حرج نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند