• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 150665

    عنوان: نماز فجر، مغرب اور عشاء میں بلند جب کہ نمازِ ظہر و عصر میں پست آوازمیں تلاوت کیوں؟

    سوال: نماز فجر، مغرب اور عشاء میں بلند جب کہ نمازِ ظہر و عصر میں پست آوازمیں تلاوت کیوں؟

    جواب نمبر: 150665

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1052-1014/L=8/1438

    صاحب اعلاء السنن نے کفایہ کے حوالے سے اس کی وجہ یہ تحریر فرمائی ہے کہ شروع میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم تمام نمازوں میں جہراً قراء ت فرماتے تھے تو مشرکین ایذاء وتکلیف پہونچاتے تھے اس وقت اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی: وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا (الاسراء:۱۱۰) یعنی آپ تمام نمازوں میں نہ تو جہراً قراء ت کریں اور نہ ہی تمام نمازوں میں سراً قراء ت کریں؛چنانچہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں تو پست آواز سے پڑھتے تھے ؛اس لیے کہ اس وقت کفارِ مکہ تکلیف پہونچانے کے درپے رہتے تھے ، اور مغرب میں باوازِ بلند پڑھتے تھے ؛اس لیے کہ اس وقت یہ لوگ کھانے میں مصروف رہتے تھے ، اور عشاء اور فجر میں اس لیے زور سے پڑھتے تھے کہ یہ کفار کے سونے کا وقت تھا، اور جمعہ وعیدین میں باواز بلند پڑھنا اس وجہ سے تھا کہ ان کا قیام مدینہ جانے کے بعد ہوااور وہاں کفارِ مکہ کے ایذاء پہونچانے کا اندیشہ نہ تھا۔مدینہ جانے کے بعد ظہراور عصر میں سراً قراء ت کرنے کی حکمت ومصلحت اگرچہ باقی نہ رہی؛کیونکہ وہاں کفار کے ایذاء پہونچانے کا اندیشہ باقی نہ رہاتاہم یہ سنت اس لیے جاری رہی کہ حکم کے باقی رہنے کے لیے سبب کا باقی رہنا ضروری نہیں۔ قال فی اعلاء السنن:وااصل أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یجہر بالقرائة فی الصلاة کلہا فی الابتداء وکان المشرکون یوذونہ فانزل اللہ تعالی:(وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا)أی لا تجہر بصلاتک کلہا، ولا تخافت بہا کلہا (وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلًا)بان تجہر بصلاة اللیل، وتخافت بصلاة النہار، فکان یخافت بعد ذلک فی صلاة الظہر والعصر، لانہم کانوا مستعدین الایذاء فی ہذین الوقتین، ویجہر فی المغرب لانہم کانوا مشغولین بالاکل، وفی العشاء والفجر؛لانہم کانوا رقوداً(نائمین)، وجہر بالجمعة والعیدین ؛لانہ أقامہا بالمدینةوماکان للکفار بہا قوةالایذاء، وہذالعذر وان زال بکثرة المسلمین، فبقیت ہذہ السنة ؛لان بقاء الحکم یستغنی عن بقاء السبب.اھ (اعلاء السنن:۵/۴ط:اشرفی دیوبند)وفی التفسیر المظہری:او المعنی وابتغ بین ذلک سبیلا یعنی بالاخفاء نہارا وحیث یکون بمسمع من المشرکین وبالجہر المتوسط لیلا.(التفسیرالمظہری:۳۴۷/۵)

     اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کی ایک وجہ یہ تحریر فرمائی ہے کہ:

    ”دن میں چونکہ بازاروں اور گھروں میں شوروشغب کا احتمال تھا، ایسے وقت میں جہری قراء ت میں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوتا، نہ پڑھنے میں مزہ آتاہے نہ سننے میں؛اس لیے ظہر اور عصر میں آہستہ قراء ت کرنے کا حکم ہوا، اور رات میں آوازیں تھم جاتی ہیں، ماحول پرسکون ہوجاتا ہے ایسے وقت میں طبیعت میں سرور ونشاط ہوتا ہے ، خوب پڑھنے اور سننے کو جی چاہتا ہے ؛اس لیے باقی تین نمازوں میں جہراً قراء ت کا حکم ہوا، اسی طرح نمازِ جمعہ وعیدین وغیرہ چونکہ خاص مواقع میں پڑھی جاتی ہیں اور اس وقت کاروبار کی مشغولیت ختم ہوجاتی ہے یا کرادی جاتی ہے تو شوروشغب بھی کم ہوجاتا ہے اور ان نمازوں میں مجمع بھی بڑا ہوتا ہے ، ایسے مواقع روز نہی آتے ؛اس لیے پندوموعظت کے پہلو کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دن کی یہ نمازیں بھی جہراًادا کی جاتی ہیں“۔ والسر فِی مُخَالفَتہ الظّہْر وَالْعصر أَن النَّہَار مَظَنَّة الصخب واللغط فِی الْأَسْوَاق والدور، وَأما غَیرہمَا فوقت ہدوء الْأَصْوَات والجہر أقرب إِلَی تذکر الْقَوْم واتعاظہم.(حجة اللہ البالغہ مع رحمة اللہ الواسعة:۴۲۲/۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند