• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 601498

    عنوان:

    شرعی قوانین كا نفاذ ہوئے بغیر كیا دین كا مقصد پورا ہوسكتا ہے؟

    سوال:

    سوال یہ ہے کہ دین کا اصل مقصد کیا ہے، کیا تمام مسلمانوں کا روزے نماز اور دیگر عبادات کا پابند ہو جانے اور گناوں سے محفوظ ہو جانے کے بعد یہ کہا جا سک گا کہ دین کا مقصد تمام ہو گیا اگرچہ شرعی قوانین نافز نہ ہوں اور عالم میں نا انصافی اور بے حیائی عام کی جا رہی ہو؟ نیز کیا یہ ممکن ہے کہ تمام مسلمان بیک وقت متقی اور پرہیزگار ہو جائیں اور ایک بھی گناہگار نہ رہے۔اگر نہیں تو کب یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنے دین پر استقامت کے ساتھ چل رہے ہیں؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے کیا مقاصد ہیں اور آپ نے ان کو کیسے حاصل کیا؟

    جواب نمبر: 601498

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:361-147T/L=11/1442

     اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کے واسطے سے امت کو جو کچھ احکام و اعمال ، ہدایات و ارشاد عطا فرمائے ہیں وہ سب دین ہے ، علماء نے اس سارے دین کو پانچ اہم شعبوں میں تقسیم فرمایا ہے (1) عقائد(2)عبادات (3)معاملات (4)معاشرت (5)اخلاقیات یہ پانچ مرکزی شعبے ہیں اگر کوئی شخص اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ان تمام شعبوں اور ان کے احکامات پر پورا اترنے کی اپنی حیثیت ، وسعت اور طاقت کے بقدر کوشش کرے ، توکہا جائیگا کہ یہ یہ دین کے تمام مطالبات اور تمام مقاصد کی تکمیل کی کوشش کررہا ہے ، اسی سے یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ دین کے تیسرے شعبہ معاملات کا دائرہ شرعی قوانین اور ان کے اجراء و نفاذ تک کو وسیع ہے ؛ پس معلوم ہوا کہ یہ عمل بھی دین کے ایک شعبہ کا اہم حصہ ہے ؛ لیکن سارے دین کے مقصد کو اسی ایک چیز میں منحصر کردینا اور باقی چیزوں کو نظر انداز یا شرعاً مطلوب توجہ نہ دینا یا دیگر تمام شعبوں کو ثانوی حیثیت دینا دین کی ناقص فہم کا نتیجہ ہے ۔

    اعلم أن مدار أمور الدین علی الاعتقادات والآداب والعبادات والمعاملات والعقوبات ، ......والعبادات خمسة : الصلاة ، والزکاة ، والصوم ، والحج ، والجہاد .والمعاملات خمسة : المعاوضات المالیة ، والمناکحات ، والمخاصمات ، والأمانات ، والترکات .والعقوبات خمسة : القصاص ، وحد السرقة ، والزنا ، والقذف ، والردة .( رد المحتار (1/ 198)اعلم أن مدار أمور الدین متعلق بالاعتقادات والعبادات والمعاملات والمزاجر والآداب (البحر الرائق شرح کنز الدقائق (1/ 21)

    آپ ﷺ کی بعثت کے مقاصد بہت سے ہیں قرآن نے ایک جگہ آپ کی بعثت کے تین مقاصد بیان کئے ہیں (1) قرآن ِ کریم کی تلاوت (2) تزکیہ نفس(3) اور تعلیمِ کتاب۔ قال تعالیٰ: (ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ) (الجمعة:2)

    ترجمہ”وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں، جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے “۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے یہی مقاصد سورة بقرہ : 129 اور سورة آل عمران : 164 میں بھی بیان فرمائے گئے ہیں۔آپ ﷺ اور آپ کی برکت سے آپ کے صحابہ سو فیصد مسلمان تھے اور صحابہ کی برکت سے سے تابعین کے اندر خیر ،تقوٰی اور صلاح غالب تھی پھر بعد کے ادوار میں وہ بات نہ رہی اسی طرح اب تک کے زمانے میں یہی صورتِ حال بلکہ اس سے بھی زیادہ بری حالت ہے ، پس تمام مسلمانوں کا متقی اور پرہیزگار ہوجانا گرچہ اب بھی ممکن ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ، البتہ بظاہرِ حال اس کا وقوع مشکل ضرور ہے ۔

    عن عبد اللہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم فلا ادری فی الثالثة أو فی الرابعة قال ثم یتخلف من بعدہم خلف تسبق شہادة احدہم یمینہ ویمینہ شہادتہ(صحیح مسلم (7/ 185)( خیر کم قرنی ) وفی روایة خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم إلی آخرہ اتفق العلماء علی أن خیر القرون قرنہ صلی اللہ علیہ و سلم والمراد أصحابہ وقد قدمنا............. والصحیح أن قرنہ صلی اللہ علیہ و سلم الصحابة والثانی التابعون والثالث تابعوہم قولہ صلی اللہ علیہ و سلم(شرح النووی علی مسلم (16/ 84 85)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند