• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 60025

    عنوان: غصب کہا جاءے یا نہیں

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین مسئلہ ھذا میں؟ زید نے اپنی جائداد اور مکانات اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو تقسیم کردے ۔زید کی اولاد میں تین لڑکے عمر، بکر اور حارث ایک لڑکی عمارہ ہے ۔حارث اپنی ضروریات زندگی اور کسب معاش کے لئے بمبئی چلا گیااور وہیں اقامت اختیار کرلی موقعہ پر زید نے اپنے بیٹوں بکر اور عمر کے باہم مشورہ سے حارث کے حصے میں دیا گیا مکان کو کرائے پر دیدیا اور حارث سے اس سلسلے میں رضامندی نہیں لی بعد میں اس کا کرایہ عمارہ کے شوہر حماد وصولتے رہے ۔ صورت مسولہ میں کیا حماد کا عمارہ کے وکیل کے طور پر مکان کا کرایہ لینا درست ہے یا نہیں ؟اور بکر اور عمر کے باہم مشورہ سے حارث کی رضامندی کے بغیر مکان کا کرایہ پر لینا ازروئے شرع جائز ہے یا غاصب کہلائیں گے ؟

    جواب نمبر: 60025

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 949-945/B=10/1436-U جب زید نے اپنی جائداد ور مکانات اپنی بیٹی اور بیٹوں میں تقسیم کرکے ان کو مالک وقابض نہیں بنادیا اور خود زید اس سے دستبردار ہوگیا تو ایسی صورت میں سب بیٹے اپنے اپنے حصہ کے مالک ہوگئے۔ زید کو چاہیے تھا کہ حارث کی رضامندی کے بعد اس کا مکان کرایہ پر دیتے اور اگر از راہ ہمدردی دیدیا تو اس کا کرایہ حارث کو ہی پہنچانا ضروری ہے۔ کسی اور کو وہ کرایہ لینا قطعی ناجائز وحرام ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند