• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 600206

    عنوان:

    کیا کوئی آدمی مجبوری میں مانگ سکتاہے؟

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بندہ جو کہ مدرسہ یا مسجد میں امام ہوا کرتا تھا ، فی الحال کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے خالی ہے ، کوئی کام نہیں ہے، ایسے وقت میں وہ کیسے مدد مانگ سکتاہے؟ کیا یہ امداد یا زکاة لے سکتاہے ؟اس کی بیوی بھی حمل سے بھی ہے ۔

    براہ کرم، رہنمائی فرمائیں ۔

    جواب نمبر: 600206

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 38-23/D=02/1442

     سوال کرنا پسندیدہ نہیں ہے اس پر وعید آئی ہے ، ہاں حوائج میں سے کسی ضرورت کا محتاج ہو تو سوال کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کے لئے کمانے کا ذریعہ نہ ہو ورنہ کسی بھی ذریعہ سے اگر کمانا ممکن ہو (خواہ اپنے معیار سے نیچے اتر کر) تو پھر اس کے لئے سوال کرنا منع ہے۔

    (۲) زکاة یا امداد دونوں کے سوال کا یہی حکم ہے ہاں اگر بغیر مانگے کوئی شخص زکاة یا امداد کی رقم دیدے تو اس کے لئے امداد لینا جائز ہے اور زکاة لینا اس وقت جائز ہوگا جب یہ مستحق زکاة ہو یعنی اس کے پاس سونا، چاندی نقد رقم اور روز مرہ استعمال سے زاید چیزیں اتنی نہ ہوں کہ ان سب کی قیمت ۶۱۲/ گرام اور ۳۶۰/ ملی گرام چاندی کے برابر ہوتی ہو۔

    (۳) صورت مسئولہ میں بیوی کے حاملہ ہونے کی صورت میں اگر ضروریات کے پورے ہونے کا بندوبست نہ ہو اور قرض کے ادائیگی کے حالات بھی نہ ہوں تو پھر ضرورت کا اظہار کر سکتے ہیں ۔ قال فی الدر: ولا یحل ان یسئل شیئا من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل او بالقوة کالصحیح المکتسب ۔ قال الشامی: قید بالسوال لان الاخذ بدونہ لا یحرم وقید بقولہ شیئا من القوت لان لہ سوٴال ما یحتاج الیہ غیر القوت کثوب ․․․․․․ واذا کان لہ دار یسکنہا لا یقدر علی الکسب قال ظہیر الدین لا یحل لہ السوٴال اذا کان یکفیہ مادونہا ․․․․․ ثم نقل ما یدل علی الجواز وقال وہو اوسع وبہ یفتی ۔ (الدر مع الرد: ۲/۷۶-۷۵، کوئٹہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند