• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 7346

    عنوان:

    کیا گھر داری یعنی کھانا پکانا ،صفائی، بچوں کی پرورش، شوہر کی خدمت وغیرہ یہ سب کچھ بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے، تو پھر کس کے ذمہ ہے؟ کیوں کہ مردوں کو زیادہ تر اوقات کو گھر سے باہر ہی گزارنے ہوتے ہیں، یعنی معاش وغیرہ کے سلسلہ میں۔ اگر یہ سب کا م بیوی نہیں کرے گی تو پھر گھر کا نظام تو نہیں چل سکے گا۔اس سلسلہ میں اسلام کیا سنت طریقہ بتاتا ہے؟

    سوال:

    کیا گھر داری یعنی کھانا پکانا ،صفائی، بچوں کی پرورش، شوہر کی خدمت وغیرہ یہ سب کچھ بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے، تو پھر کس کے ذمہ ہے؟ کیوں کہ مردوں کو زیادہ تر اوقات کو گھر سے باہر ہی گزارنے ہوتے ہیں، یعنی معاش وغیرہ کے سلسلہ میں۔ اگر یہ سب کا م بیوی نہیں کرے گی تو پھر گھر کا نظام تو نہیں چل سکے گا۔اس سلسلہ میں اسلام کیا سنت طریقہ بتاتا ہے؟

    جواب نمبر: 7346

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1438=1354/ د

     

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مابین تقسیم کار اس طرح فرمایا کہ باہر کا کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ اور گھر کا کام حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذمہ۔ قال في زاد المعاد حکم النبي صلی اللہ علیہ وسلم علی فاطمة بالخدمة الباطنة وحکم علی علي بالخدمة الظاہرة

    شوہر کے ذمہ نان ونفقہ کی ذمہ داری اور باہری کام مثلاً بازار سے سامان وغیرہ لانا اور عورت کی راحت و دلجوئی کا پورا خیال رکھنا۔

    بیوی کے ذمہ شوہر کے سامان و مکان کی نگرانی، صفائی ستھرائی اور سلیقہ مندی سے اسے رکھنا۔ بچوں کی پرورش و تربیت کرنا۔ شوہر کی دلجوئی و اطاعت کرنا واجب ہے۔ نان ونفقہ شوہر کے ذمہ ہے، لہٰذا اگر عورت ایسے گھرانہ سے تعلق رکھتی ہے جو خود کھانا نہیں پکاتیں بلکہ ان کی نوکرانیاں پکاتی ہیں یا اسے بیماری وغیرہ کا عذر ہے اس بنا پر وہ شوہر کے گھر کھانا پکانے سے انکار کرتی ہے تو شوہر کے ذمہ پکی روٹی کا انتظام کرنا ضروری ہے، عورت کو کھانا پکانے پر مجبور نہیں کرسکتا، بلکہ نوکرانی رکھ کر روٹی پکوائے۔ اور اگر عورت کا معیار اس قدر بلند نہیں ہے، بلکہ گھر کی عورتیں خود ہی کھانا پکاتی ہیں جیسا کہ بالعموم اسلامی معاشرہ کے متوسط گھرانوں میں ہوتا ہے تو عورت کو کھانا پکانے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ ضروریات واسباب و سہولیات کا انتظام کرنا حسب حیثیت شوہر پر واجب ہوگا۔ حاصل یہ کہ کوئی عذر مانع نہ ہو تو عورت پر کھانا پکانا دیانةً واجب ہے لیکن اگر وہ انکار کرتی ہے تو کھانا پکانے پر اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قال فی الدر: امتنعت المرأة من الطحن والخبز إن کانت ممن لاتخدم أو کان بھا علة فعلیہ أن یأتیھا بطعام مہیأ وإلا بأن کانت ممن تخدم نفسھا وتقدر علی ذلک لا یجب علیہ ولا یجوز لہا أخذ الأجرة علی ذلک لوجوبہ علیہا دیانةً ولو شریفةً قال الشامي فتفتی بہ ولکنہا لا تجبر علیہ إن أبت بدائع (شامي: ج۲ ص۷۰۴)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند