• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 57315

    عنوان: اگر كسی كے پاس اتنے پیسے ہوں كہ حج یا شادی دونوں میں سے ایك ہی كرسكتا ہے تو كیا كرے؟

    سوال: اگر کسی غیر شادی شدہ مرد کے پاس صرف اتنے پیسے ہیں کہ ان پیسوں سے یا تو وہ شادی کرسکتا ہے یا حج کرسکتا ہے جب کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے کرنے کے بعد اس کے پاس دوسرے کے لیے پیسے نہیں بچتے اور کوئی ظاہری صورت بھی نہیں کہ دوبارہ پیسے کما سکے۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہیے؟ میں پاکستان سے ہوں۔ پاکستان سے حج کرنے پر 500000/-کا خرچ آتا ہے۔ اور شادی کرنے پر 600000/-کا خرچ ہوتا ہے۔ اور ایک کمرہ بنوانے پر 300000/-کا خرچ آتاہے۔ اور میرے پاس کل 1100000/-روپئے ہیں۔ اگر شادی کرتا ہوں اور کمرہ بنواتا ہوں تو حج کے لیے پیسے نہیں بچتے ہیں۔اور اگر حج کرتا ہوں تو شادی کا کچھ انتظام نظر نہیں آتاہے۔

    جواب نمبر: 57315

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 202-168/Sn=4/1436-U (۱) صورت مسئولہ سے متعلق اصل حکم شرعی یہ ہے: اگر کسی غیر شادی شدہ شخص کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ اس سے یا تو شادی کرسکتا ہے یا حج، اگر حج کو جائے تو شادی کے لیے باقی نہ رہے گا، اکر شادی کرے گا تو حج کے لیے باقی نہ رہے گا، تو دیکھا جائے کہ اس شخص کی حالت ایسی ہے کہ شادی کی بہت ضرورت تو ہے مگر نفس بے قابو نہیں ہے تو اگر حج کا وقت آگیا تو اس پر حج میں جانا شرعاً ضروری ہے؛ ہاں اگر حج کا وقت ہنوز نہیں آیا تو پھر اس کے لیے شادی کرلینا بھی جائز ہے؛ لیکن اکر شادی کے لیے نفس بے قابو ہے؛ بلکہ معصیت کا اندیشہ ہے تو پھر بہرصورت شادی کرلینا جائز ہے خواہ وقت آگیا ہو یا نہ آیا ہو، جن صورتوں میں شادی کرلینا جائز ہے، ان میں اس شخص پر دوبارہ حج اس وقت فرض ہوگا جب اس کے پاس حج کے اخراجات مہیا ہوجائیں وفي الأشباہ: معہ ألف وفاف العزوبة إن کان قبل خروج أہل بلدہ فلہ التزوّج ولو وقتہ لزمہ الحج (درمختار)․․․ ولذا اعترضہ ابن کمال باشا فی شرحہ علی الہدایة بأنہ حال التوقان مقدّم علی الحج اتفاقًا؛ لأن في ترکہ امرین: ترک الفرض والوقوع في الزنا، وجواب أبي حنیفة في غیر حال التوقان اھ أي في غیر حال تحققہ الزنا لأنہ لو تحققہ فرض التزوج أما لو خافہ فالتزوج واجب لا فرض فیقدم الحج الفرض علیہ فافھم․ (الدر مع الرد: ۳/۴۶۱، ط: زکریا) وانظر (أنوار مناسک، ص: ۱۵۸) (۲) اوپر جو شادی کے اخراجات کی بات آئی اس سے مراد آج کے مروجہ شادی کے اخراجات نہیں ہیں؛ بلکہ وہ اخراجات ہیں جو سنت کے مطابق سادے طریقہ پر شادی کرنے میں ہوتے ہیں، آپ نے جو شادی کا ۶/ لاکھ روپئے کا بجٹ لکھا ہے یہ غیرضروری امور اور مسرفانہ التزامات پر مبنی ہیں، شرعاً شادی میں یہت زیادہ اخراجات نہیں ہیں، لڑکے کے ذمہ صرف مہر کی ادائیگی نیز بیوی کی رہائش اور کھانے پہننے کا انتظام ضروری ہے، رہی دعوت ولیمہ تو وہ کوئی فرض یا واجب نہیں ہے؛ البتہ مسنون ہے، گھر والوں اور دوچار افراد کو جو کچھ بھی میسر ہو کھلانے سے اس سنت پر عمل ہوجائے گا، اس کے لیے بڑی دعوت، پنڈال، بڑے انتظامات سب غیر ضروری امور ہیں، بہرحال سورتِ مسئولہ میں آپ پر حج کی ادائیگی فرض اور ضروری ہے، حج کرنے کے بعد بھی آپ کے پاس ان شاء اللہ اتنی رقم بچے گی کہ جس سے آپ سنت کے مطابق سادے طریقے پر شادی بھی کرسکتے ہیں، نیز کمرہ بھی بناسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند