• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 36741

    عنوان: "اہلے کتاب سے شادی"

    سوال: میرا سوال یہ ہیکہ کیا کوئی مسلم اہل کتاب سے شادی کر سکتا ہے؟ اگرشادی کر سکتا ہے تو اس کی کوئی خاص شرائط ہیں ؟ براہ مہربانی جواب قرآن اور حدیث کے حوالاجات کے ساتھ بیان فرمائیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 36741

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(م): 388=388-3/1433 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ“ (الآیة:۵، سورہ مائدہ، پ:۶) اور درمختار علی الشامی میں ہے: وصح نکاح کتابیة) وإن کرہ تنزیہا (موٴمنة بنبي) مرسل (مقرة بکتاب) منزل (الشامي: ۴/۱۲۵-۱۳۴، کتاب النکاح) نیز فتاویٰ ہندیہ میں ہے: وکل من یعتقد دینًا سماویة ولہ کتاب منزل کصحف إبراہیم علیہ السلام وشیث وزبور داوٴد علیہ السلام فہو من أہل الکتاب فتجوز مناکحتہم وأکل ذبائحہم کذا في التبیین․ (فتاوی الہندیة: ۱/۲۸۱، القسم السابع المحرمات بالشرک) مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد کتابیہ عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ لیکن الحیلة الناجزہ میں ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر عورت کتابیہ یعنی نصرانیہ ویہودیہ وغیرہ ہو تو اس سے مسلمان مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ اول: یہ کہ وہ تمام اقوام یورپ (مغرب ممالک) کی طرح صرف نام کے یہودی یا عیسائی اور درحقیقت لامذہب (دہریہ) نہ ہو؛ اپنے مذہبی اصول کو کم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو۔ دوسری شرط: یہ ہے کہ وہ اصل سے یہودیہ یا نصرانیہ ہو۔ اسلام سے مرتبد ہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو، جب یہ دونوں شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں تو اس سے نکاح صحیح ومنعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے بھی نکاح کرنا مکروہ اور بہت سے مفاسد پر مشتمل ہے۔ اسی لیے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں مسلمانوں کو کتابیہ عورت کے نکاح سے منع فرمادیا تھا۔ (الحیلة الناجزہ: ۱۱۳ رسالہ حکم الازدواج مع اختلاف دین الأزواج، ط: مکتبہ رضی دیوبند) اور ہم آئے دن عیسائی اور یہودی مشنریوں کی اسلام کے خلاف طرح طرح کی زور آزمائیاں دیکھتے رہتے ہیں ان سب کی وجہ سے بلاضرورتِ شدیدہ؛ ان سے نکاح نہ کیا جائے کیوں کہ وہ شادی بیاہ کے راستے اسلام اور اہل اسلام میں آکر عیسائیت کے فروغ اور نقص اسلام وغدر اسلام میں کوشاں رہتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند