• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 59216

    عنوان: حضرت کیا اللہ جو دیکھتا ہے یا سنتا ہے اس کی آنکھ اور کان ویسے ہیں جیسے ہمارے ہیں میں نہ سنا ہے اللہ کا وجود کسی بھی انسان سے نہی ملتا اس کی جو خوبیاں ہیں اس کا برحق علم وہ خود جانتا ہے مطلب یہ کہ مخلوق کا جو وجود ہے جیسے (آنکھ، کان. ہاتھ بازو) اللہ کا وہ وجود نہیں ہے اس کی یہ خوبیاں (آنکھ، کان. ہاتھ بازو موجود) ہیں جن کو وہ خود بہتر جانتا ہے کیا یہ عقیدہ ٹھیک ہے ؟

    سوال: حضرت کیا اللہ جو دیکھتا ہے یا سنتا ہے اس کی آنکھ اور کان ویسے ہیں جیسے ہمارے ہیں میں نہ سنا ہے اللہ کا وجود کسی بھی انسان سے نہی ملتا اس کی جو خوبیاں ہیں اس کا برحق علم وہ خود جانتا ہے مطلب یہ کہ مخلوق کا جو وجود ہے جیسے (آنکھ، کان. ہاتھ بازو) اللہ کا وہ وجود نہیں ہے اس کی یہ خوبیاں (آنکھ، کان. ہاتھ بازو موجود) ہیں جن کو وہ خود بہتر جانتا ہے کیا یہ عقیدہ ٹھیک ہے ؟ مجھے قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر اس بارے میں علم تو دے دیں جو حوالہ دیں اردو ترجمہ بتا دیں۔ برائے مہربانی حوالہ لازمی دیں تاکہ میرا عقیدہ مضبوط ہو جائے ۔ ۲) کیا چاروں امام ائمہ اربعہ کا بھی یہی عقیدہ تھا ؟ کیا اس میں کوئی اختلاف ہے ؟ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 59216

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 751-146/D=7/1436-U (۱) اللہ تعالیٰ جسم واعضاء سے منزہ ہے، یعنی اس کے آنکھ ناک کان ہمارے آنکھ ناک کان کی طرح نہیں ہیں، سننا، دیکھنا اس کی ذاتی صفت ہے جس کے لیے نہ کسی عضو کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قابل سماعت یا قابل روٴیت چیز کا ہونا ضروری ہے۔ (۲) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے بہت سی صفات ذاتیہ اور فعلیہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض صفات صفات متشابہات کہلاتی ہیں، یعنی ان کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے مثلاً لفظ ید (ہاتھ) کما في قولہ تعالی: ید اللہ فوقَ أیدِیہم، قولہ تعالی: ما منعک أن تسجد لما خلقتُ بیديَّ اور مثلاً نفس کما فی قولہ تعالی حکایة عن عیسی -علیہ السلام- تعلم ما في نفسي ولا أعلم ما في نفسک․ وفي الحدیث، وفي الحدیث الشریف: أنت کما أثنیتَ علی نفسک․ اور مثلاً لفظ عین (آنکھ) کما في قولہ تعالی: ولتصنع علی عیني وغیرہ۔ اب اہل سنت والجماعت اور ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ صفات چونکہ صراحةً قرآن وحدیث میں وارد ہیں اس لیے بلاشبہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں؛ لیکن کما یلیق بشانہ ، مخلوقات کی صفت کی طرح نہیں، لأنہ قال تعالی: لا لیس کمِثْلہ شیءٌ یعنی اللہ تعالی اپنی ذات وصفات میں مخلوقات کی طرح نہیں، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ولہ ید ووجہ ونفس، فما ذکر اللہ في القرآن من ذکر الوجہ․․․ والید․․․ والنفس․․․ فہو صفات متشابہات بلاکیف․ یعنی اللہ تعالی کے لیے یہ ساری صفات ثابت ہیں؛ لیکن کنہ اور حقیقت معلوم نہیں، اسی طرح علی بن علی بن ابی العز الحنفی شرح الطحاویہ میں فرماتے ہیں: والواجب أن ینظر في ہذا الباب أعني في باب الصفات فما أثبتہ اللہ ورسولہ أثبتناہ وما نفاہ اللہ ورسولہ نفیناہ (شرح الطحاویة: ۱۶۸، ط: سعودی) اسی طرح ملا علی قاری شرح الفقہ الأکبر میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والمشہور عند الجمہور من أہل السنة وا لجماعة أنہم لا یریدون بنفي التشبیہ نفي الصفات بل یریدون أنہ سبحانہ لا یشبہ المخلوق في أسمائہ وصفاتہ وأفعالہ (شرح الفقہ الاکبر ص:۱۷ ط: اشرفی) یعنی اہل سنت والجماعت باری تعاری کی ذات سے اس صفات کی نفی نہیں کرتے بلکہ صفات مخلوقات کے ساتھ مشابہت کی نفی کرتے ہیں، الغرض ائمہ اربعہ اور جمہور اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ نصوص میں وارد صفات اللہ تعالی کے لیے بلاکیف ثابت ہیں، پس یہی عقیدہ رکھنا چاہیے اور اس میں زیادہ غور خوض کرنا مناسب نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند