• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 54716

    عنوان: وسیلے سے دعا مانگنا

    سوال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا کیسا ہے؟ جیسا کہ ذاکر نائک کی تقریر میں کہا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس کا ذکر کسی بھی معتبر کتابوں سے نہیں ملتااور نہ ہی امت دعا یعنی کہ سورة فاتحہ میں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا نہیں مانگی گئی ہے، نہ ہی کسی صحابی سے کہیں ثابت ہے کہ صحابہ کرام نے کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگی ، اور بہت سے علماء کے یہ بات کہنے پر کہ حضرت آدم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی تھی ، جس پر ذاکر نائک نے کہا ہے کہ کسی بھی کتاب میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعامانگی، اگر کوئی ایسا کہتاہے کہ ایسا لکھا ہے تو وہ حوالہ دیں۔ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 54716

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1263-1258/N=11/1435-U حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے یا کسی نیک وصالح شخص -خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ- کے وسیلہ سے یا اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ودرست ہے اورمتعدد نصوص سے ثابت ہے، ان میں سے ایک دلیل یہ ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو بصارت کے لیے اپنے وسیلہ سے درج ذیل الفاظ میں دعا کرنے کی ہدایت فرمائی: ”اللَّھُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي ھَذِہِ لِتُقْضَی لِیَ، اللَّھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ“ یہ روایت ترمذی شریف (۲:۱۹۸) میں ہے اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور ابن ماجہ (ص۹۹) میں بھی ہے اور انھوں نے فرمایا:”قال أبو إسحاق: ہذا حدیث صحیح“، اور انجاح الحاجہ حاشیہ ابن ماجہ میں ہے: ”وصحہ البیہقي وزاد: فقام وقد أبصر“ اس لیے توسل کا انکار درست نہیں، یہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی جمہور کے خلاف ذاتی تحقیق کی اندھی تقلید ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند