• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 24350

    عنوان: رزق کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر پیسے کمانے کے لیے محنت کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اگر روزگار کے بجائے وہی وقت اللہ کے لیے یا فیملی کے لیے لگایاجائے تو کیسا ہے؟ رزق کے معاملے میں محنت کا معاملہ کیا ہے؟ کیا زیادہ محنت سے زیادہ رزق ملتاہے؟ یا صرف اللہ کی رضا سے؟

    سوال: رزق کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر پیسے کمانے کے لیے محنت کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اگر روزگار کے بجائے وہی وقت اللہ کے لیے یا فیملی کے لیے لگایاجائے تو کیسا ہے؟ رزق کے معاملے میں محنت کا معاملہ کیا ہے؟ کیا زیادہ محنت سے زیادہ رزق ملتاہے؟ یا صرف اللہ کی رضا سے؟

    جواب نمبر: 24350

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(تل): 1305=340-9/1431

    یہ تو بالکل صحیح ہے کہ رزق کا مالک صرف اللہ ہے وہ جس کے رزق کو چاہے کشادہ کردے اور جس کے رزق کو چاہے تنگ کردے اس میں بندہ کے کسب کا کوئی دخل نہیں، دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو برائے نام کام کرتے ہیں اور ان کی آمدنی لاکھوں کروڑوں کی ہوتی ہے اور کتنے لوگ ایسے ہیں جو انتہائی مشقت کے باوجود چند ٹکے کماتے ہیں، اگر آدمی اس پر پورا یقین کرلے تو حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایسے ہی رزق دیں گے جس طرح پرندوں کو دیتے ہیں، پرندے صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام پیٹ بھرکر واپس آجاتے ہیں نہ ان کی کوئی دوکان ہے نہ اور کوئی ذریعہ معاش، مگر یہ بات انتہائی مجاہدے کے بعد حاصل ہوتی ہے، کتنے اولیاء اللہ آج بھی ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، مگر وہ بے فکر زندگی گذاررہے ہیں۔ عام آدمی کو یہ درجہ کمال حاصل نہیں ہوتا اس لیے اگر ہرایک کے لیے یہ حکم لکھ دیا جائے تو کتنے آدمی بددین ہوجائیں گے، جہاں تک روپے کمانے میں محنت کرنے کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں انسان کو ایک اختیار دیا ہے اسی اختیا رکی وجہ سے اس سے آخرت میں باز پرس ہوگی، اگر آدمی کمانے میں محنت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کی جزا بھی مرتب کرتے ہیں، قرآن شریف میں ہے: ”وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا“ یہ آیت دین میں مجاہدہ کرنے والے لوگوں کے بارے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے راستے کھولتے چلے جاتے ہیں۔ پتہ چلا کہ ترقی میں محنت مجاہدہ اور آدمی کی کوشش کا بھی دخل ہے، نیز جس طرح آدمی اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرکے ترقی حاصل کرتا ہے، اسی طرح معاملہ اس کے برعکس بھی ہے، بعض مرتبہ آدمی اللہ کی نافرمانی میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ پھر اب اس کو ہدایت کی توفیق نہیں ملتی۔ قرآن شریف میں ایسے لوگوں کا بھی تذکرہ موجود ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْہِمْ اَأَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (۶) خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ وَعَلٰی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۷) وقال في موضع آخر: وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کَافِرُوْنَ (الآیة) خلاصہ یہ ہے کہ آدمی بالکل مجبور نہیں ہے، اگر وہ محنت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس پر جزا ضرور دیتے ہیں، اب یہ اس کی اپنی سوچ ہے کہ وہ کس راہ کو اختیار کرتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند