عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 145422
جواب نمبر: 145422
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 018-022/L=1/1438
اس سلسلے میں دو جواب پہلے لكھے جاچكے ہیں ان كی نقل منسلك كی جاتی ہے۔
-------------------------------------
مندرجہ ذیل سوال وجواب ملاحظہ فرمائیں
-------------------------------------
سوال: آپ کا جواب دیکھا․․․ باقی اب بھی اگر کہنے والے نے ایسا ہی کہا ہے کہ ․․․․ اللہ کے ہاتھ ہدایت ہوتی تو وہ نبیوں کو دنیا میں کیوں بھیجتا․․․․
یہ لفظ کہنے والے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے وہ مرتد مانا جائے یا نہیں؟
اس کی کوئی وضاحت نہیں کری، بس بات کو ․․․․ برا․․․․ کہہ کر ٹال دیا گیا، شرعی لحاظ سے برائی کس درجہ کی ہے بیان نہیں کیا گیا۔
Fatwa ID: 1544-1520/L=01/1438
کسی کے کافر و مرتد قرار دینے کے سلسلے میں علمائے دیوبند ہمیشہ محتاط رہے ہیں حضرت گنگوہی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے مکتوب ”انوار القلوب“ لکھا ہے ا س وقت سے روافض کی تکفیر پر جرأت نہیں ہوتی، نیز حضرت گنگوہی قدس سرہ العزیز اپنے مکتوب انوار القلوب میں فرماتے ہیں کہ متقدمین اہلِ کلام کا ننانوے احتمالات کو ذکر کرنا تحدیداً نہیں ہے بلکہ تقریباً ہے اگر ہزار احتمالات میں سے ۹۹۹/ احتمالات کفر کے ہوں اور ایک احتمال ایمان کا ہوتو اس کی بھی تکفیر نہ کرنی چاہئے اس لیے وہ احتمال بلیغ عمل میں لائے تھے اھ (مستفاد فتاوی شیخ الاسلام: ۱۹۱) ویسے پچھلے فتوی میں یہ بات لکھدی گئی تھی کہ پورا بیان یکسوئی سے سن لیا جائے یا صاحبِ معاملہ سے دریافت کرلیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند