• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 50021

    عنوان: میرا سوال ہے یہ ہے کہ آج کل موٹر سائیکل شو روم والے موٹر سائیکل ادھار پر دیتے ہیں۔ فرض کیجئے ان کوموٹر سائیکل بیالیس ہزار روپئے کی آتی ہے وہ نقد پچاس ہزار کی فروخت کرتے ہیں۔ اب وہ کسی کو ادھار دیتے ہیں تو ایک سال کی ادھار کے ساتھ وہ ساٹھ ہزار کی فروخت کرتے ہیں اور ایڈوانس میں بیس ہزار بھی لیتے ہیں۔ پھر وہ بقایا رقم کو بارہ ماہ پر تقسیم کرتے ہیں اور سال کے اندر لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا سود ہے؟

    سوال: میرا سوال ہے یہ ہے کہ آج کل موٹر سائیکل شو روم والے موٹر سائیکل ادھار پر دیتے ہیں۔ فرض کیجئے ان کوموٹر سائیکل بیالیس ہزار روپئے کی آتی ہے وہ نقد پچاس ہزار کی فروخت کرتے ہیں۔ اب وہ کسی کو ادھار دیتے ہیں تو ایک سال کی ادھار کے ساتھ وہ ساٹھ ہزار کی فروخت کرتے ہیں اور ایڈوانس میں بیس ہزار بھی لیتے ہیں۔ پھر وہ بقایا رقم کو بارہ ماہ پر تقسیم کرتے ہیں اور سال کے اندر لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا سود ہے؟

    جواب نمبر: 50021

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 264-215/B=2/1435-U یہ کام جائز ہے اور سود نہیں ہے، لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیں کہ خریدار نقد لے گا یا اُدھار قسطوں پر اور کتنے مہینوں میں رقم ادا کرے گا تاکہ اسی حساب سے قیمت مقرر کی جائے، چنانچہ شرح المجلہ میں ہے کہ: ” البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح․․․ یلزم أن تکون المدّة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط“، شرح المجلة: ۱/۱۲۴-۱۲۵ رقم المادّة ۲۴۵-۲۴۶ دار الکتب العلمیہ بیروت․ اور ہدایہ میں ہے: ”لأن للأجل شبہًا بالبیع ألا یری أنہ یزاد في الثمن لأجل الأجل․․․“ ہدایہ آخرین، ص:۷۴۔ البتہ اگر شو روم والے اور خریدنے والے کے درمیان بینک کا واسطہ ہو یعنی بینک والے خریدنے والے کے لیے قرض فراہم کرتے ہیں، تب یہ قرض کا معاملہ ناجائزاور سود ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند