معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 50021
جواب نمبر: 50021
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 264-215/B=2/1435-U یہ کام جائز ہے اور سود نہیں ہے، لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیں کہ خریدار نقد لے گا یا اُدھار قسطوں پر اور کتنے مہینوں میں رقم ادا کرے گا تاکہ اسی حساب سے قیمت مقرر کی جائے، چنانچہ شرح المجلہ میں ہے کہ: ” البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح․․․ یلزم أن تکون المدّة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط“، شرح المجلة: ۱/۱۲۴-۱۲۵ رقم المادّة ۲۴۵-۲۴۶ دار الکتب العلمیہ بیروت․ اور ہدایہ میں ہے: ”لأن للأجل شبہًا بالبیع ألا یری أنہ یزاد في الثمن لأجل الأجل․․․“ ہدایہ آخرین، ص:۷۴۔ البتہ اگر شو روم والے اور خریدنے والے کے درمیان بینک کا واسطہ ہو یعنی بینک والے خریدنے والے کے لیے قرض فراہم کرتے ہیں، تب یہ قرض کا معاملہ ناجائزاور سود ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند