• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 609753

    عنوان:

    کسی شرط ومعاہدہ اور عرف وغیرہ کے بغیر قرض کی ادائیگی میں مزید دینے کا حکم

    سوال:

    میری خالہ نے مجھ سے (۱۵۰۰۰) پندرہ ہزار روپے قرض لیا? تھا میری اور ان کی نیت سود کی نہیں تھی۔ناہی سودکی کوئی بات اور خیال تھا۔ ہفتے یا اور کئی دن بعد واپس لوٹایا اور لوٹاتے وقت ۵۰۰ پانچ سو روپے زیادہ دیا اور کہا کہ یہ تم رکھ لو ان سے کچھ کھا پی لو میں ۱۸ سال کا ہوں اور پڑھائی کرتا ہوں کالج میں۔ وہ مجھے پہلے بھی روپے دیا کرتی تھیں کھانے پینے کے لیے۔کیا ۵۰۰ پانچ سو روپے سود ہوں گے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 609753

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 495-89/TH-Mulhaqa=7/1443

     صورت مسئولہ میں آپ کی خالہ نے آپ کو ۵۰۰؍ روپے جو مزید دیے ہیں، وہ شرعاً سود نہیں ہیں، آپ بلا تکلف وہ روپے استعمال کرسکتے ہیں (فتاوی دار العلوم دیوبند، باب القرض، قرض کا بیان،۱۵:۵۳،۵۹،۶۰، جواب سوال: ۶، ۲۰- ۲۲، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)۔

    عن جابر بن عبد اللہؓ قال: أتیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم وھو في المسجد، قال مسعر: أراہ قال: ضحی، فقال: صل رکعتین وکان لي علیہ دین فقضاني وزادني (الصحیح للبخاري، کتاب فی الاستقراض وأداء الدیون والحجر والتفلیس، باب حسن القضاء، ۱: ۳۲۲، ط: المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)۔

    عن أبي رافعؓ قال: استسلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بکرا، فجاء تہ إبل من الصدقۃ، قال أبو رافع: فأمرني أن أقضي الرجل بَکرَہٗ، فقلت: لا أجد إلا جملا خیارا رباعیا، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’أعطہ إیاہ؛ فإن خیر الناس أحسنھم قضاء‘‘، رواہ مسلم (مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الإفلاس والإنظار، الفصل الأول، ص: ۲۵۱، ط: المکتبۃ الأشرفیۃ، دیوبند)۔

    و فیہ دلیل علی أن من استقرض شیئا فرد أحسن أو أکثر منہ من غیر شرطہ کان محسنا ویحل ذلک للمقرض، وقال النوويؒ: یجوز للمقرض أخذ الزیادۃ سواء زاد فی الصفۃ أو العدد، ومذھب مالکؒ أن الزیادۃ فی العدد منھي عنہا، وحجۃ أصحابنا عموم قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’فإن خیر الناس أحسنھم قضاء‘‘، وفی الحدیث دلیل علی أن رد الأجود فی القرض أو الدین من السنۃ ومکارم الأخلاق، ولیس ھو من قرض جر منفعۃ؛ لأن المنھي عنہ ما کان مشروطا في عقد القرض (مرقاۃ المفاتیح۔ کتاب البیوع، باب الإفلاس والإنظار، الفصل الأول، ۶:۱۰۵، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)۔

    قال محمد رحمہ اللہ تعالی في کتاب الصرف:إن أبا حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی کان یکرہ کل قرض جر منفعۃ، قال الکرخي: ھذا إذا کانت المنفعۃ مشروطۃ فی العقد بأن أقرض غلۃ لیرد علیہ صحاحا أو ما أشبہ ذلک، فإن لم تکن المنفعۃ مشروطۃ فی العقد فأعطاہ المستقرض أجود مما علیہ فلا بأس بہ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب البیوع، الباب التاسع عشر فی القرض والاستقراض إلخ، ۳:۲۰۲، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند