• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 17669

    عنوان:

    میرا نام شمشاد احمد ہے میں مالیر کوٹلہ، پنجاب کا رہنے والا ہوں۔ میں بیج کی پیداوار کا کاروبار شروع کرنا چاہتاہوں جس میں میں کسانوں کو بیچ مہیا کراؤں گا اور دوبارہ اس پیداوار کے بیج کو کنٹریکٹ (معاہدہ)کی بنیا دپراعلی قیمت دے کر خریدوں گا۔ چاول اور گیہوں یہ دو اصل فصل ہوں گی۔ جوپیداوار ان سے لی جاتی ہے اس کو ذخیرہ کیا جاتاہے اور اس کا گریڈ متعین کیا جاتا ہے۔ ملاوٹی اور کھوٹے اناج اس پیداوار سے علیحدہ کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد اچھی قسم کا بیج کسانوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔اس کام کے لیے تقریباً پینتالیس لاکھ روپیہ کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہوگی۔پانچ سے دس لاکھ روپئے مشینری اور گودام وغیرہ میں لگیں گے اور تیس سے پینتیس لاکھ روپئے ان کسانوں کوادا کرنے میں صرف ہوں گے جن سے میں پیداوار خریدوں گا۔ میرے پاس پانچ لاکھ روپئے ہیں۔یہاں پر ایک پنجاب اسٹیٹ سیڈ ڈپارٹمنٹ ہے،جو کہ ایک سرکاری ایجنسی ہے ،جو کسی بھی بیچ کے کاروبار پر پچیس فیصد سبسڈی(امدادی رقم یا گرانٹ) دیتی ہے، جس میں پروجیکٹ رپورٹ، خریدی ہوئی مشینری کی بل یا کوئی اور سرمایہ کاری کی رپورٹ داخل کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب اسٹیٹ ...

    سوال:

    میرا نام شمشاد احمد ہے میں مالیر کوٹلہ، پنجاب کا رہنے والا ہوں۔ میں بیج کی پیداوار کا کاروبار شروع کرنا چاہتاہوں جس میں میں کسانوں کو بیچ مہیا کراؤں گا اور دوبارہ اس پیداوار کے بیج کو کنٹریکٹ (معاہدہ)کی بنیا دپراعلی قیمت دے کر خریدوں گا۔ چاول اور گیہوں یہ دو اصل فصل ہوں گی۔ جوپیداوار ان سے لی جاتی ہے اس کو ذخیرہ کیا جاتاہے اور اس کا گریڈ متعین کیا جاتا ہے۔ ملاوٹی اور کھوٹے اناج اس پیداوار سے علیحدہ کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد اچھی قسم کا بیج کسانوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔اس کام کے لیے تقریباً پینتالیس لاکھ روپیہ کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہوگی۔پانچ سے دس لاکھ روپئے مشینری اور گودام وغیرہ میں لگیں گے اور تیس سے پینتیس لاکھ روپئے ان کسانوں کوادا کرنے میں صرف ہوں گے جن سے میں پیداوار خریدوں گا۔ میرے پاس پانچ لاکھ روپئے ہیں۔یہاں پر ایک پنجاب اسٹیٹ سیڈ ڈپارٹمنٹ ہے،جو کہ ایک سرکاری ایجنسی ہے ،جو کسی بھی بیچ کے کاروبار پر پچیس فیصد سبسڈی(امدادی رقم یا گرانٹ) دیتی ہے، جس میں پروجیکٹ رپورٹ، خریدی ہوئی مشینری کی بل یا کوئی اور سرمایہ کاری کی رپورٹ داخل کرنا پڑتا ہے۔ پنجاب اسٹیٹ سیڈ ڈپارٹمنٹ کہتاہے کہ تم کسی بینک سے لون لو ہم پچیس فیصد سبسڈی منظور کردیں گے یا تو تم کو یا تو بینک کو۔لون منظور ہونے کے وقت لون کی قسطیں اورادائیگی کی مدت متعین کردی جاتی ہے۔ مثلاً، مجھ کو بینک کو اگلے چار سال میں چالیس لاکھ روپئے واپس کرنے ہوں گے (اگر لون بارہ فیصدسالانہ سودکی قیمت کی بنیا د پر لیا گیا ہے) تو اس صورت میں مجھ کو پہلے سال4.8فیصد، دوسرے سال 3.6فیصد، تیسرے سال 2.4فیصد اور چوتھے سال 1.2فیصد علی الترتیب ادا کرنے ہوں گے۔چار سال میں کل سود کی رقم بارہ لاکھ ہوگی۔اگر کوئی دوسرا بینک دس فیصد پر لون دیتا ہے تو پورا لون ادا کرنے کے بعد کل سود (4 3 2 1)دس لاکھ بن جائے گا۔ نیز کسی دوسرے بینک میں سود کی در نو فیصد بھی ہوسکتی ہے اس صورت میں چار سال کے بعد پورا لون اگر وقت پر ادا کیا جائے گاتو یہ(3.6 2.7 1.8 9) نو لاکھ ہوگا۔ پہلی صورت (یعنی بارہ فیصد سود)میں کل سود جو کہ ادا کرنے پڑیں گے وہ بارہ لاکھ روپئے ہوں گے جو کہ سبسڈی کی رقم سے زیادہ ہے یعنی دس لاکھ (پوری سرمایہ کا ری کا پچیس فیصد)۔ دوسری صورت (یعنی دس فیصد سود) کی شکل میں کل سود جو کہ ادا کیا جائے گا وہ دس لاکھ ہوگا جو کہ سبسڈی کے برابر ہے، یعنی دس لاکھ (کل سرمایہ کاری کا پچیس فیصد )۔ تیسری صورت (نو فیصد سالانہ سود)میں کل سود جو کہ ادا کیا جائے گا وہ نو لاکھ ہوگا جو کہ سبسڈی سے کم ہے یعنی دس لاکھ (کل سرمایہ کاری کا پچیس فیصد)۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کی کسی بھی صورت میں جس میں کل سودجو کہ لون پر ادا کیا جاتا ہے وہ اس سبسڈی کی رقم سے جو کہ پنجاب اسٹیٹ سیڈ ڈپارٹمنٹ (سرکاری ڈپارٹمنٹ)کے ذریعہ سے دی جاتی ہے اس سے کم ہے یا اس کے برابر ہے جیسا کہ میں نے دوسری اورتیسری صورت میں ذکر کیا،کیا شریعت کے مطابق بینک سے لون لینا جائز ہے ، کیوں کہ ہم بینک کے سود کے لیے اس سبسڈی رقم کو استعمال کرتے ہیں؟ بالفاظ دیگر میں اپنی جیب سے کوئی بھی سود ادا نہیں کروں گا،بلکہ جوکچھ سبسڈی کی رقم پنجاب اسٹیٹ سیڈ ڈپارٹمنٹ سے ملے گی میں اس کو بینک کو بطور سود کے ادا کردوں گا۔واضح رہے کہ دونوں محکمے(بینک اور پنجاب اسٹیٹ سیڈ ڈپارٹمنٹ) مکمل طور پردو الگ الگ شعبے ہیں۔اور بینک کا سود وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جس کے اندر لون بینک کو واپس کیا جانا ہے گھٹ اور بڑھ سکتا ہے۔ برائے کرم جلد جواب عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 17669

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د):2252=1790-1/1431

     

    (الف) ایک ہے سود کا معاملہ کرنا لون لے کر،اور دوسری چیز ہے سود کا ادا کرنا، جب لون لینے کا معاملہ الگ بینک سے اور سبسڈی ملنے کا معاملہ دوسرے بینک سے ہے تو ایسی شکل میں آپ سودی معاملہ کرنے کے گناہ اور سود کی رقم ادا کرنے کی قباحت سے نہیں بچ سکیں گے، سودی معاملہ کا گناہ بھی ہوگا اور سود ادا کرنے کا بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ سود کی رقم آپ کی اپنی جیب سے نہیں جائے گی، بلکہ سبسڈی کے ذریعہ ادا ہوجائے گی۔ (ب) جب لون لینے اور سبسڈی ملنے کا معاملہ ایک ہی بینک سے ہو تو اُن صورتوں میں جنھیں سود کے نام سے ادا کی جانے والی رقم سبسڈی کے نام سے ملنے والی رقم کے اندر اندر ہو، ایک ہی بینک سے دونوں معاملے (لون اور سبسڈی) کرلینے کی گنجائش ہے، لیکن یہ سود کی رقم کا سبسڈی کے اندر ہونا اسی وقت ہوسکے گا کہ جب قسطوں میں ادا کی جانے والی رقم مقررہ حساب کے مطابق ہرماہ پابندی سے ادا ہوتی رہے اور کاروبار ذہنی آنکڑے کے مطابق چلتا رہے ورنہ سود میں ادا کی جانے والی رقم کبھی ذہنی حساب سے زاید بھی ہوسکتی ہے جب کہ ذہنی حساب کے مطابق کاروبار نتیجہ خیز نہ ہوسکا ہو۔ ایسی شکل میں سود کی رقم زاید ادا کرنے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ (ج) سودی معاملہ خود قابل اجتناب ہے، اگرچہ مذکورہ گنجائش والی شکل نتیجتاً سودی معاملہ نہ ہو، مگر ابتداء اس کے مماثل تو ہے اور بعض وقت سودی ہی میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ بھی ہے، پس یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات میں مذکور پہلے جملے کی نحوست سے محفوظ رہ پانا مشکل ہے۔ پس سوچ سمجھ کر بدون ضرورت شدیدہ کے گنجائش والی صورت بھی اختیار نہ کریں، اگر کرلیں تو توبہ استغفار کے ذریعہ نحوست سے محفوظ رہنے کی دعا کرتے رہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند