• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 53154

    عنوان: میں بینک سے لیز پر ایک کار خریدنا چاہتاہوں۔ بینک کار خریدے گا او رمجھ کو فروخت کرے گا ایک متعین منافع کے ساتھ اور میں کل رقم قسطوں میں ادا کروں گا۔ یہ پچھلے فتوی کی روشنی میں درست لگتا ہے۔

    سوال: میں بینک سے لیز پر ایک کار خریدنا چاہتاہوں۔ بینک کار خریدے گا او رمجھ کو فروخت کرے گا ایک متعین منافع کے ساتھ اور میں کل رقم قسطوں میں ادا کروں گا۔ یہ پچھلے فتوی کی روشنی میں درست لگتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں وقت پر قسط ادا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہوں اور بینک میرے اوپر کچھ متعین رقم کا جرمانہ لگاتا ہے (فیصد نہیں جیسے کہ ایک تاخیر پر ۱۰۰/ روپئے)، تو اس صورت میں یہ جائز ہوگا کہ نہیں؟ اگر مذکورہ بالا صورت درست نہیں ہے تو اس صورت میں اگر معاہدہ پر دستخط کرتا ہوں اور میں وقت پر قسطیں ادا کرنے کا اہل ہوں (بغیر کسی تاخیر کے)لیکن اصل معاہدہ میں یہ مذکور ہے کہ اگر میں قسطوں کو وقت پر ادا نہیں کرپاتا ہوں تو بینک مجھ پر جرمانہ عائد کرے گا اور چارج وصول کرے گا۔ تو کیا معاہدہ پر دستخط کرنا درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 53154

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 515-515/M=6/1436-U متعینہ وقت پر قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ کی شرط لگانا اگر عقد بیع میں داخل ہے تو یہ مقتضائے عقد کے خلاف ہے؛ لہٰذا اس شرط کی وجہ سے بیع فاسد ہوجائے گی اور فاسد معاہدے پر دستخط کرنا صحیح نہیں ہے۔ قولہ (اعتیاض عن الأجل وہو حرام) وہذا لأن الأجل صفةٌ کالجودة والاعتیاض عن الجودة لا یجوز فکذا عن الأجل، ألا تری أن الشرع حرَّ ربا النسیئة ولیس فیہ إلا مقابلة المال بالأجل شبُبہة فلأن یکون مقابلة المال بالأجل حقیقةً حرامًا أولی․ (الکفایة شرح الہدایة ۷/۳۹۹-۳۹۷، کتاب الصلح، ط: رشیدیہ پاکستان) وکل شرطٍ لا یقتضیہ العقد وفی منفعة لأحد المتعاقدین أو المعقود علیہ وہو من أہل الاستحقاق یفسدہ (الہدایة شرح البدایة ج۳/۵۹، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند