عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 604310
تدفین كے بعد تعزیت كے نام پر اجتماع اور دیگر رسمیں
ہمارے علاقے میں جنازے کے بعد اہل میت تین دن سے ایک ہفتہ تک تعزیت کیلیے آنے والوں کی خاطر گھر پر بیٹھتے ہیں اور اس کے بعد ختم یا ایصال ثواب کے نام پر مساجد میں اسپیکروں پر اس کا اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ فلاں آدمی جو فوت ہوا تھا اس کا ختم شریف آج فلاں وقت پر پڑھایا جائے گا اس اجتماع ثانی میں کافی تعداد میں کافی تعداد میں عوام الناس شامل ہوکر ایک عالم دین کی تقریر سنتے ہیں جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے اور آخر میں دعا منگوائی جاتی ہے۔پھر کھانے کا وسیع انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا اجتماع ثانی بدعت ہے یا نہیں اور اس میں علماء کرام کا تقریر کرنا اور عوام الناس کا شامل ہونا بدعتی کی تعظیم میں شامل ہے یا نہیں ہے؟ علماء کرام یہ مصلحت بیان کرتے ہیں کہ اگر ہم نہ جائیں تو لوگ ہم سے دور ہو جائیں گے۔ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مساجد میں ختم و غیرہ کا اعلان کروانا شرعا جایز بھی ہے یا نہیں؟ آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان سوالات کی مدلل وضاحت کریں۔
جواب نمبر: 604310
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 957-745/H=09/1442
تین دن سے ایک ہفتہ تک تعزیت کے لئے آنے والوں کی خاطر گھر میں پسماندگانِ میت کا بیٹھنا اور اس میں ختم نیز دیگر امور کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا صرف بدعت قبیحہ ہی نہیں بلکہ مروجہ تعزیت کا یہ طریقہ اور بھی دیگر مفاسد پر مشتمل ہے ایک جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم (جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم) اہل میت کے یہاں لوگوں کے جمع ہونے اوراہل میت کا ان جمع ہونے والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے کنا نری الاجتماع الی اہل المیت صنعہم الطعام من النیاحة (سنن ابن ماجة کتاب الجنائز) علماء کرام کا یہ قول کہ ”اگر ہم نہ جائیں گے تو لوگ ہم (علماء) سے دور ہوجائیں گے“ درست نہیں ہے اس لئے کہ علماء کی شرکت سے لوگ شریعت سے دور ہوجائیں گے تو ایسی صورت میں سوچنا چاہئے کہ کس کا حق مقدم ہے جب تعزیت کا مذکور فی السوال طریقہ جائز نہیں تو اس کا اعلان بھی مساجد سے کرنا جائز نہیں سب کو مل جل کر ان جیسی قبیح رسموں کو ختم کرنا چاہئے حکمت و بصیرت نرمی و شفقت سے سمجھانے کا نظام بنائیں گے تو ان شاء اللہ اس سے فائدہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند