• عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم

    سوال نمبر: 601066

    عنوان:

    میت سے متعلق رسوم وبدعات

    سوال:

    مرنے والے نے وصیت کی کہ میرے مرنے بعد جتنے بھی لوگ جنازے میں آئیں گے تو میرے پیسے سے کھانا کھلانا تو کیا وارث پر اس کا پورا کرنا واجب ہے ؟

    ۲)میت کے پیسوں سے مروجہ قرآن خوانی کی رسم پورا کرنا کیسا ہے ؟

    ۳)ہمارے یہاں یہ مشہور ہے کہ جب آدمی انتقال کے قریب ہوتاہے تو اس شخص کو زمین پر لٹا تے ہیں اور کہتے ہیں کہ زمین میں جانے گا تو زمین ہی پر لٹانا چاہیے تو کیا یہ درست ہے ؟

    ۳)ایصال ثواب کے لئے جتنا قرآن پڑھے اتنے ہی کا ثواب روزانہ پہنچانا بہتر ہے یا جس دن قرآن پورا ہو؟

    ۴)دعاء میں تمام مسلمانوں کو ایصال ثواب کرے مخصوص لوگوں کا نام لیکر کہنا کہ خاص کر ان صاحب کو ثواب پہنچا تو کیا خاص کرنا بعد میں بہتر ہے یا تمام امت مسلمہ کو ثواب پہنچانا؟

    ۵)قرآن کا بلند آواز سے قبر کے پاس پڑھناکیسا ہے ۶)پیر کے دن کے انتقال کی کوئی فضیلت حدیث ہے ؟

    جواب نمبر: 601066

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:178-55T/N=4/1442

    (۱): کسی کے انتقال پر جنازہ میں شرکت کے لیے یا پسماندگان کی تعزیت کے لیے آنے والے سبھی مہمانوں کی، جو عمومی دعوت ہوتی ہے، یہ شرعاً درست نہیں، یہ بلا شبہ امر منکر وناجائز ہے ؛ کیوں کہ اسلام میں دعوت خوشی کے موقع پر مشروع ہے، غمی کے موقعہ پر نہیں؛ لہٰذاکسی مرحوم کی جانب سے اس کی وصیت بھی درست نہیں؛ البتہ چوں کہ اس موقعہ پر دور دراز سے آئے ہوئے یا رات میں قیام کرنے والے خاص وقریبی مہمانوں (جیسے: میت کی بیٹی،داماد، بھانجہ، بھانجی وغیرہ)کے لیے اہل میت کے پڑوسیوں اور دور کے رشتہ داروں کی جانب سے عام سادے کھانے کا نظم کرنا درست ہے؛ لہٰذا اگر وصیت کی صورت میں تہائی ترکہ سے ان خاص مہمانوں کے لیے سادے کھانے کا نظم کردیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ اور اگر پڑوسی حضرات یا دور کے رشتہ دار ہی کردیں تو یہ زیادہ مناسب ہے۔

    قولہ: ”وباتخاذ طعام لھم“: قال فی الفتح: ویستحب لجیران أھل المیت والأقرباء الأباعد تھیئة طعام لھم یشبعھم یومھم ولیلتھم لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاء ھم ما یشغلھم“، حسنہ الترمذي وصححہ الحاکم، ولأنہ بر ومعروف، ویلح علیھم فی الأکل؛ لأن الحزن یمنعھم من ذلک، فیضعفون اھ۔ وقال أیضاً: ویکرہ اتخاذ الضیافة من الطعام من أھل المیت؛ لأنہ شرع فی السرور لا فی الشرور، وھي بدعة مستقبحة، وروی الإمام أحمد وابن ماجة بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّہ قال: ”کنا نعد الاجتماع إلی أھل المیت وصنعھم الطعام من النیاحة“ اھ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ۱۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۳۶۱، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    وفیھا - فی الخانیة- عن أبي جعفر: أوصی باتخاذ الطعام بعد موتہ ویطعم الذین یحضرون التعزیة جاز من الثلث ویحل لمن طال مقامہ ومسافتہ لا لمن لم یطل (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوصایا، ۱۰: ۳۶۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ: ”ویحل لمن طال مقامہ ومسافتہ“: ویستوی فیہ الغني والفقیر، خانیة۔ وتفسیر طول المسافة أن لا یبیتوا في منازلھم، ظھیریة۔ والمراد أن لا یمکنھم المبیت فیھا لو أرادوا الرجوع إلیھا في ذلک الیوم (رد المحتار)۔

    (۲): مروجہ قرآن خوانی، جس میں قرآن پڑھنے والوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے یا ناشتہ کرایا جاتا ہے، درست نہیں؛ لہٰذا میت کے ترکہ سے مروجہ قرآن خوانی کی رسم کی تکمیل درست نہ ہوگی۔

    (۳): قریب المرگ کو زمین پر لٹانے کی بات شرعاً بے اصل وبے بنیاد ہے۔

    (۴): دونوں صورتیں درست ہیں؛ البتہ روز کا روز ایصال ثواب کردیا جائے تو بہتر ہے۔

    (۵): کچھ ایصال ثواب تمام امت مسلمہ کو کردے اور کچھ خاص مرحومین کو۔

    (۶): قبر کے پاس بآواز بلند قرآن کریم پڑھ سکتے ہیں بہ شرطیکہ آس پاس کوئی نجاست یا گندگی نہ ہو، نیز تلاوت پر معاوضہ کا لین دین نہ ہو، صرف اللہ کے لیے ثواب کی نیت سے تلاوت کی جائے؛ البتہ اگر کسی علاقے میں اس کا التزام ہو اور لوگ اسے ضروری سمجھتے ہوں یا التزام کا یا ضروری سمجھنے کا اندیشہ ہو تو وہاں احتراز چاہیے اورثواب تو گھر سے بھی پہنچ جاتا ہے۔

    (۷): پیر کے دن انتقال کی فضیلت کی کوئی حدیث میرے علم میں نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند