• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 600723

    عنوان:

    بیٹے اور بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم کیسے ہو؟

    سوال:

    میں وظیفہ پر سبکدوش ہوا ہوں۔ میں چاہتاہوں کہ اپنی زندگی میں وراثت کی اسلامی طریقے سے تقسیم کردوں۔ مجھے ان باتوں کے جواب چاہئے ۔ 1۔ وراثت میں کیا صرف ذاتی گھر کی تقسیم ہوگی یا پھر میرے پاس نقد رقم اور ایک رہن میں گھرحاصل کیا ہوا ہے وہ سب شامل کرنا ہوگا۔ 2۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا۔ 3۔ اگر میرے گھر کی آج کی قیمت 50 لاکھ آتی ہے اور میرے پاس 20 لاکھ روپے کے دیگر اثاثے ہیں تو میں ایک بیٹا اور تین بیٹیوں میں یہ رقم کتنی کتنی تقسیم کروں؟ جواب عنایت فرمائیں ۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 600723

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 231-23T/B=03/1442

     ابھی آپ جب تک حیات ہیں آپ اپنی تمام جائداد ، اثاثے اور نقد کے خود مالک و مختار ہیں۔ اپنی حیات میں جو کچھ اولاد میں تقسیم کریں گے یہ وراثت کی تقسیم نہ ہوگی، بلکہ ہبہ اور عطیہ ہوگا۔ میراث کی تقسیم آپ کے مرنے کے بعد ہوگی۔ حالت حیات میں اگر آپ اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو افضل طریقہ یہ ہے کہ جائداد وغیرہ تقسیم کرکے ہر ایک کا حصہ علیحدہ کرکے سب کو برابر حصہ دے دیا جائے یعنی چار حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ علیحدہ کرکے ہر ایک کو قابض و مالک بنادیں (مشترک نہ ہو) اور خود اس جائداد سے دستبرار ہو جائیں۔ مناسب یہ ہے کہ آپ اپنی گذر بسر کے لئے بیوی موجود ہو تو اس کی گذر بسر کے لئے پہلے رکھ لیں اس کے بعد جائداد اولاد کے درمیان تقسیم کریں۔ اور آپ کو اختیار ہے چاہے تو صرف گھر تقسیم فرمادیں اور جی چاہے تو گھر، اثاثہ اور نقد سب ہی چیزیں اپنی زندگی میں تقسیم فرمادیں۔ حالت حیات میں بیٹے بیٹی کو برابر دیا جاتا ہے اور میراث کی تقسیم میں لڑکی کو آدھا اور لڑکے کو دوگنا دیا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے: سوّوا بین اولادکم فی العطیة ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند