معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 32366
جواب نمبر: 32366
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 1147=665-7/1432 باپ کی زندگی میں اولاد (بیٹے، بیٹیوں) کا حق اپنے باپ کی جائداد میں ثابت نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے کہ وراثت کا تعلق موت کے بعد سے ہے، زندگی میں باپ کو اختیارہے، چاہے اپنے سرمایہ اور جائداد کو اپنے پاس رکھے یا فروخت کرکے کسی کام میں لگادے یا کسی دوسرے کو ہبہ کردے، اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کردے، البتہ اس صورت میں بیٹے، بیٹیوں کو برابر دینا چاہیے ہاں اگر کوئی اولاد معذور ہے یا والدین کی زیادہ خدمت کرتا ہے یا معاشی اعتبار سے تنگ دست ہے وغیرہ تو ان باتوں کی بنا پر ایسی اولاد کو دیگر بچے، بچیوں سے زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں، جہاں تک بھائیوں کی اپنی جائداد کی بات ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اسد اور رحمت خان نے اگر واقعةً کاروبار اپنے پیسے سے شروع کیا، بھائیوں نے کوئی عملی یا مالی شرکت نہیں کی تو جو کچھ ان دونوں نے کمایا، سب ان کا ہے، دیگر بھائیوں اور والدین کا اس میں کوئی حق نہیں ہے؛ البتہ اسد نے اپنی والد کی جس زمین پر اپنا مکان تعمیر کیا، وہ زمین باپ کی ہے، اب اسد کو چاہیے کہ باپ کو قیمت لینے پر راضی کرلے اور ان سے وہ زمین خریدلے۔ اور فضل جنان کو باپ نے جو پچاس ہزار روپئے دیا تھا کیا کہہ کر دیا تھا؟ کس نیت سے دیا تھا؟ اگر باپ نے فضل خاں کو بہ طور ہبہ یا امداد کے دیا تھا تو یہ پیسے ان (فضل حنان) کی ملک ہوگئے تھے، اس سے کاروبار کرکے جو کچھ انھوں نے کمایا وہ ان کا ہے۔ ہاں اگر مذکورہ رقم (پچاس ہزار روپئے) باپ نے فضل حنان کو کچھ اور کہہ کر دیا تھا تو اس کی وضاحت کی جائے، پھر ان شاء اللہ جواب دیا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند