• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 32366

    عنوان: اسلامی شریعت کے مطابق اس مسئلہ میں تقسیم کس طرح سے ممکن ہے؟

    سوال: ایک شخص کے پانچ بیٹے ہیں، نام ہیں، (۱) اسد، (۲)رحمت خان، (۳ ) فضل حنان، (۴) عبد الباسط، (۵) زبیر۔ حتی القدور سب کو تعلیم دلائی گئی۔ والد اور بھائیوں سے کوئی مدد لیے بغیر اسد نے اپنا بزنس شروع کیا تھا۔ اسد اپنے والد کی زمین میں ایک گھر بنارہا ہے جس کی قیمت 60/ لاکھ روپئے ہیں۔ فضل حنان کو والد کی طرف سے 50/ ہزارروپئے ملے تھے اور اس نے بزنس شروع کردیا تھا، بزنس میں ترقی ہوئی اور اب اس کی قیمت 5/ لاکھ روپئے ہے۔ رحمت نے خود اپنا بزنس شروع کیاتھا کسی سے مدد لیے بغیر ۔ عبد الباسط ملازمت کررہا ہے اور اسے تنخواہ مل رہی ہے۔ زبیر کچھ نہیں کررہا ہے۔ اب وہ معاشی اعتبار سے الگ الگ ہونا چاہتے ہیں، اور ہر کوئی اپنا حصہ چاہتاہے، اسد کا کہنا ہے کہ میرا بزنس ذاتی ہے، دوسرے بھائیوں کا میرے اس بزنس میں کوئی حق نہیں ہے۔ہاں جس زمین میں مکان بنا ہے اس کی ٹوٹل قیمت میں سب کا حصہ ہوسکتاہے۔زبیر کا کہناہے کہ تمام بھائیوں کی پروپرٹی تمام بھائیوں میں تقسیم ہونی چاہئے۔ رحمت کا کہنا ہے کہ میرے بزنس میں کسی کی کوئی مد د نہیں ہے اور کسی نے کوئی رقم نہیں دی ہے ، اس لیے اس میں کسی کا حصہ نہیں ہے۔ فضل کا کہنا ہے کہ مقامی روایات اور مشترکہ فیملی نظام کے مطابق تمام بھائیوں کے اثاثے بشمول والد کے برابری سے تمام بھائیوں میں تقسیم کئے جانے چاہئے اور والد کو بھی 1/6/ حصہ ملنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے مطابق اس مسئلہ میں تقسیم کس طرح سے ممکن ہے؟براہ کرم، وضاحت فرما ئیں۔

    جواب نمبر: 32366

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1147=665-7/1432 باپ کی زندگی میں اولاد (بیٹے، بیٹیوں) کا حق اپنے باپ کی جائداد میں ثابت نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے کہ وراثت کا تعلق موت کے بعد سے ہے، زندگی میں باپ کو اختیارہے، چاہے اپنے سرمایہ اور جائداد کو اپنے پاس رکھے یا فروخت کرکے کسی کام میں لگادے یا کسی دوسرے کو ہبہ کردے، اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کردے، البتہ اس صورت میں بیٹے، بیٹیوں کو برابر دینا چاہیے ہاں اگر کوئی اولاد معذور ہے یا والدین کی زیادہ خدمت کرتا ہے یا معاشی اعتبار سے تنگ دست ہے وغیرہ تو ان باتوں کی بنا پر ایسی اولاد کو دیگر بچے، بچیوں سے زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں، جہاں تک بھائیوں کی اپنی جائداد کی بات ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اسد اور رحمت خان نے اگر واقعةً کاروبار اپنے پیسے سے شروع کیا، بھائیوں نے کوئی عملی یا مالی شرکت نہیں کی تو جو کچھ ان دونوں نے کمایا، سب ان کا ہے، دیگر بھائیوں اور والدین کا اس میں کوئی حق نہیں ہے؛ البتہ اسد نے اپنی والد کی جس زمین پر اپنا مکان تعمیر کیا، وہ زمین باپ کی ہے، اب اسد کو چاہیے کہ باپ کو قیمت لینے پر راضی کرلے اور ان سے وہ زمین خریدلے۔ اور فضل جنان کو باپ نے جو پچاس ہزار روپئے دیا تھا کیا کہہ کر دیا تھا؟ کس نیت سے دیا تھا؟ اگر باپ نے فضل خاں کو بہ طور ہبہ یا امداد کے دیا تھا تو یہ پیسے ان (فضل حنان) کی ملک ہوگئے تھے، اس سے کاروبار کرکے جو کچھ انھوں نے کمایا وہ ان کا ہے۔ ہاں اگر مذکورہ رقم (پچاس ہزار روپئے) باپ نے فضل حنان کو کچھ اور کہہ کر دیا تھا تو اس کی وضاحت کی جائے، پھر ان شاء اللہ جواب دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند