• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 150336

    عنوان: ماں کے مال اور جائداد میں حصہ دار

    سوال: سوال: اسد کے والد کا انتقال بچپن میں ہو گیا اس کی دو بہنیں بہی ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں ،اب جو بہی مال جائداد ہے وہ ماں کے نام ہے ،اب وراثت میں کس کا کتنا حصہ ہوگا ؟

    جواب نمبر: 150336

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 722-681/N=7/1438

    جب اسد کے والد کا انتقال ہوا، اگر اس وقت اُن (والد اسد)کے واثین میں صرف ایک بیوی، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں، ان کے علاوہ مرحوم کا کوئی اور وارث نہیں تھا، یعنی: مرحوم کے ماں باپ یا دادا، دادی وغیرہ کا انتقال مرحوم کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا تو ایسی صورت میں مرحوم نے اپنے انتقال پر جو کچھ چھوڑا، وہ سب بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۳۲/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۴/ حصے بیوہ(: اسد کی ماں) کو، ۱۴/ حصے اسد کو ، اور ۷، ۷/ حصے اسد کی دونوں بہنوں میں سے ہر بہن کو ملے گا، بہنوں کے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ان کا حصہ وراثت سوخت نہ ہوگا۔

    اور اسد کی ماں نے جو جائداد وغیرہ اپنے نام کرارکھی ہے، اگر یہ سب ان کی اپنی خریدی ہوئی ہے یا انھیں ان کے والدین سے وراثت میں ملی ہے تو وہ سب اُن کی ہے اور اس صورت میں اِن جائداد وغیرہ میں فی الحال کوئی وراثت جاری نہیں ہوگی۔ اور اگر انہوں نے شوہر مرحوم (والد اسد) کی مملوکہ جائداد وغیرہ اپنے نام کرائی ہے تو وہ چوں کہ مرحوم کا ترکہ ہے ؛ لہٰذا مرحوم کی متروکہ جائداد میں مرحوم کے تمام شرعی وارثین کا حسب شرع حق وحصہ ہوگا۔

    قال اللہ تعالی:﴿ولھن الربع مما ترکتم إن لم یکن لکم ولد، فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم الآیة ﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)، و قال تعالی أیضاً :﴿ یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)، فیفرض للزوجة فصاعداً الثمن مع ولد الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ ( المصدر السابق ، ص:۵۲۲) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند