• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 56063

    عنوان: مشترك چیز كا ہبہ كرنا كیسا ہے؟

    سوال: میرے دادا کا انتقال تقریباً پینتیس سال پہلے ہوا تھا ان کی تین اولادیں تھیں دو بیٹے اور ایک بیٹی اور دادا کی ملکیت میں وہ ایک مکان تھا جس میں وہ اپنے دو بیٹوں (یعنی میرے والد اور تایا) کے ساتھ رہ رہے تھے جبکہ ان کی ایک بیٹی (میری پھوپھی) اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے مکان میں مقیم تھیں۔ دادا کے انتقال کے تقریباً دس سال کے بعد میرے والد اور تایا نے مکان کو دو حصوّں میں تقسیم کر کے اپنے اپنے نام مکان کرا لیا جبکہ میری پھوپھی نے اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے اُس وقت اپنا حصہ اپنے دونوں بھائیوں کو ہبہ (تحفہ) کر دیا اور تقسیم کے مرحلہ کے وقت کاغذات پر اپنے دستخط بھی کیئے تھے اور وہ آج بھی اپنی اُس بات اور فعل پر قائم ہیں۔ سوالات یہ ہیں کہ کیا پھوپھی کا اپنا حصہ اپنے دونوں بھائیوں کو ہبہ کر دینا شریعت کے لحاظ سے درست تسلیم کیا جائے گا ؟ اگر اس ہبہ کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور یہ ہبہ کرنا اسلام کے لحاظ سے نہیں مانا جائے گا اور اب پھوپھی کو ان کے حصہ کی رقم دی جائے تو وہ رقم کس وقت کے لحاظ سے دی جائے گی؟ دادا کے انتقال کے وقت یا جب مکان تقسیم کیا گیا یا پھر آج کے حساب سے ؟

    جواب نمبر: 56063

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 134-134/Sn=1/1436-U87 صورت مسئولہ میں اگر مذکور فی الاستفتاء مکان دو بھائی اور بہن کے درمیان حصہٴ شرعی کے مطابق تقسیم کیے جانے کے بعد بھی قابل رہائش ہوسکتا تھا تو آپ کی پھوپھی کا اپنے دونوں بھائیوں کو ہبہ کرنا شرعاً صحیح نہیں ہوا؛ اس لیے کہ صحتِ ہبہ کے لیے شئ کا تقسیم شدہ ہونا ضرور ی ہے، مشترک ومشاع شئ کا ہبہ شرعاً درست نہیں ہے؛ لہٰذا بھائیوں کو چاہیے کہ بہن کا مکان میں جو حصہ بنتا ہے وہ ان کے حوالہ کریں یا پھر بہن کی رضامندی سے موجودہ قیمت کے اعتبار سے مناسب قیمت طے کرکے بہن کا حصہ ان سے خرید لیں۔ وشرائط صحّتہا في الموہوب أن یکون مقبوضًا غیر مشاعٍ غیر مشغول (درمختار ۸/۴۸۹، ط: زکریا) وقید المشاع بما لم یقسم؛ لأن ہبة المشاع الذي تمکن قسمتہ لا یصح اھ (البحر الرائق ۷/ ۴۸۶، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند