معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 68726
جواب نمبر: 68726
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1257-168/N=11/1437 مذہب اسلام میں والد یا والدہ کے ترکہ میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی حق و حصہ ہوتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ والدین کی ساری پراپرٹی وغیرہ صرف بیٹوں کا حق ہے، قال اللہ تعالی: للرجال نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدٰن والأقربون مما قل منہ أو کثر، نصیبا مفروضا (سورہ نسا، آیت: ۷) ، وقال تعالی أیضاً: ﴿یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾ (سورہ نسا، آیت: ۱۱) ، ویصیر عصبة بغیرہ البناتُ بالابن الخ (در مختار مع شامی ۱۰: ۵۲۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں بیٹوں کا والد مرحوم کے ترکہ میں بہنوں کو ان کا حق وحصہ نہ دینا؛ بلکہ والد صاحب کی ساری جائداد صرف آپس میں تقسیم کرلینا بلاشبہ بہنوں کی حق تلفی اور ان کے ساتھ ظلم وزیادتی ہے جوبلاشبہ حرام وناجائز ہے، صورت مسئولہ میں جائداد کے قابضین پر ضروری ہے کہ تمام جائدادیں تمام وارثین کے درمیان شرعی طریقہ پر تقسیم کریں، کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ کریں ورنہ انھیں آخرت میں سخت عذاب کا سامنا ہوسکتا ہے، اللہ تعالی حفاظت فرمائیں۔ رہا یہ کہ صورت مسئولہ میں بہنوں کا کتنا حق وحصہ ہے؟ تو اس کے لیے دادا کے تمام وارثین کی تفصیل تحریر کریں اور وارثین میں سے جن کا انتقال ہوچکا ہے، ان کی تاریخ وفات اور ان کے وارثین کی تفصیل بھی تحریر کریں، اس کے بعد انشاء اللہ آپ کے دادا کے ترکہ کی شرعی تقسیم تحریر کی جائے گی۔ اور اگر کسی سوال کسی مفتی سے مرتب کرائیں تو زیادہ بہتر ہوگا تاکہ کوئی وارث لکھنے سے نہ رہ جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند