• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 149635

    عنوان: ہنگامی حالات میں خون عطیہ کرنے کا مسئلہ

    سوال: کیا فرماتے علمائے کرام ومفتیان شرع عظام مسئلہ ذیل میں؟ اس وقت ہسپتالوں میں مریضوں کو خون کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ،حادثات کے اندرشدید زخمی ہونے والے حضرات اور دوران ولادت خواتین کیلئے یہ ضرورت عام ہوچکی ہے ، ہمارے یہاں متعدد ایسے واقعات پیش آئے کہ کہ مریض کو فوری طور پر خون نہ ملنے کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی ،کیونکہ خون کا انتظام کرنے کیلئے بہت ساری کاروائیاں کرنی پڑتی ہیں جس میں بسا اوقات کافی تاخیر بھی ہوجاتی ہے ، اس مسئلہ کے حل کیلئے ہم نے بلڈ بینک انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہمیں یہ ترکیب بتلائی کہ آپ حضرات خون جمع کرنے کے لئے ایک کیمپ لگائیں اور جب کافی مقدار میں خون جمع ہوجائے تو وہ بلڈ بینک میں جمع کردیں ،چونکہ پیشگی طور پر آپ کا خون بلڈ بینک میں جمع رہے گا اس لئے آپ کے مریض کو خون کی ضرورت کے وقت فوری طور پر بلاکسی تاخیر کے خون مہیا کرادیا جا ئے گا اور دیگر کاروائیوں کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، اسی لئے ہماری کمیٹی نے خون کے عطیہ کیلئے ایک کیمپ لگانے کا پروگرام بنایا ہے جس میں تمام نوجوان اجتماعی طور پر خون کا عطیہ کریں گے تاکہ ہنگامی صورتحال میں ہمارے مریضوں کو فوری خون مہیا ہوسکے اور ان کے لواحقین مجبوری کے حالات میں لاکھوں روپئے خرچ کرنے سے بچ جائیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ہمارا یہ فعل جائز وثواب ہے یا ناجائز وحرام ؟اگر جائز ہے تو فبہا وگر نہ تو ایسے ہنگامی حالات میں ہمارے پاس کون سا راستہ باقی رہتا ہے ؟ مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں ،اللہ آپ کو بہترین صلہ عطا فرمائے۔

    جواب نمبر: 149635

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 855-1067/L=8/1438

    انسان کا خون جب بدن سے نکال لیا جائے تو وہ نجس ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ انسان کا جزء بھی ہے؛ اس لیے واجب التکریم بھی ہے؛ لہٰذا اس کا استعمال عام حالات میں جائز نہیں ہے؛ البتہ جب کسی مریض کی ہلاکت کا اندیشہ ہو اور اس کی جان خطرے میں ہو اور خون دینے سے جان بچ جانے کی توقع ہو یا تجربہ کار ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو تو ان حالات میں خون دینا جائز ہے اور جب ضرورت نہ ہو تو چونکہ انسان اپنے بدن یا کسی عضو کا مالک نہیں ہے؛ اس لیے اس کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ امکانی ضرورتوں کے لیے اپنا خون نکلواکر بلڈ بینک میں جمع کرادے؛ لہٰذا اس کی اجازت نہیں ہے؛ البتہ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جو نوجوان اپنا خون دینا چاہتے ہیں ان کا نام اور کس گروپ کا خون ہے، لکھ دیا جائے اور آئندہ جب کسی مریض کو خون کی ضرورت ہو تو اس نوجوان سے لیے لیا جائے جس کا خون مریض کے گروپ کے مطابق ہو۔ (مستفاد فتاوی رحیمیہ: ۱/۱۷۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند