• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 146190

    عنوان: رقم لى كر اسكول میں تقرری كرنا؟

    سوال: اگر کوئی عام آدمی کسی مدرسہ یا اسکول میں تقرری کا متمنی ہو اور اس کے سامنے یہ شرط رکھی جائے کہ اگر اپ اتنی رقم ادا کرِیں گے تو مقبول ہیں ورنہ دوسرے امیدوار کو جگہ دی جائیگی۔اور اس مدفوعہ رقم رشوت یا کوئی اور نام دیا جائے گا ۔مزید ایسا کرنا حلال ہے یا حرام سائل ۔

    جواب نمبر: 146190

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 129-110/N=2/1438

     

    اگر کوئی شخص کسی مدرسہ یا اسکول میں مطلوبہ اہلیت وشرائط کی تکمیل کی بنا پر بجا طور تقرری کا استحقاق رکھتا ہے اور اگر تقرری کے لیے امتحان لیا گیا ہے تو اس میں اس نے تمام امیدواروں میں اول نمبر سے کام یابی بھی حاصل کی ہے؛ لیکن رشوت نہ دینے کی صورت میں استحقاق سوخت ہوجانے کا اندیشہ ہے تو ایسی مجبوری میں حق کی وصولیابی اور دفع ظلم کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہوگی؛ البتہ لینے والے کے لیے رشوت لینا اس صورت میں بھی حرام ہی ہوگا، اور اگر کوئی شخص مطلوبہ اہلیت اور شرائط کی عدم تکمیل کی بنا پر تقرری کا استحقاق ہی نہیں رکھتا؛ بلکہ استحقاق دوسروں کا ہے تو رشوت دے کر استحقاق حاصل کرنا اور اصل مستحق کی حق تلفی کرنا ہرگز جائز نہیں؛ بلکہ سخت حرام وناجائز ہے۔ عن عبد اللہ بن عمرورضي الله عنه  قال:لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي،رواہ أبو داود وابن ماجة،ورواہ الترمذي عنہ وعن أبي ھریرةرضي الله عنه (مشکوة شریف ص ۳۲۶، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، الرشوة ما یعطی لإبطال حق أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطی لیتوصل بہ إلی حق أو لیدفع بہ عن نفسہ ظلماً فلا بأس بہ،……،قال التوربشتي:وروي أن ابن مسعودرضي الله عنه  أخذ في شییٴ بأرض الحبشة،فأعطی دینارین فخلی سبیلہ(مرقات المفاتیح ۷: ۲۹۵، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ،بیروت)،وفیہ - فی المجتبی - أیضاً:دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسہ ومالہ ولاستخراج حق لہ لیس برشوة، یعنی:في حق الدافع اھ (شامی ۹: ۶۰۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند