• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 606664

    عنوان:

    یتیموں پر جو خرچ ہوا ہے ، چچا کا بعد میں ان کے مال سے لینا

    سوال:

    2003 میں ایک گھر میں ایک بڑابھائی اور ان کا خاندان ،چھوٹا بھائی اور ان کے ساتھ یتیم بھتیجا ، بھتیجی اور بیوہ بھابھی اکھٹے رہتے ہیں۔3 سال تک گھر کا خرچ مشترکہ ہوتا رہا۔ آمدنی کا ذریعہ صرف چھوٹے بھائی کا تھا۔ بڑا بھائی کی کوئی آمدنی نہیں تھی۔ بعدمیں گھریلو ناچاقی کی وجہ سے بڑا بھائی الگ ہوگیا۔ بڑے بھائی نے اندازے کے مطابق 3000 فی ماہ کے لحاظ سے 108000 یتیم بھتیجا، بھتیجی اور بیوہ بھابھی کے وراثتی پلاٹ کے فروخت کے وقت کاٹ لیے ۔ 1: کیا اندازے کے مطابق یہ رقم لینا ٹھیک ہے ؟ جبکہ انکی کوئی آمدنی نہیں تھی۔ 2: کیا کفالت کا خرچ بڑا بھائی لے سکتا ہے یا چھوٹا بھائی؟

    جواب نمبر: 606664

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:259-130/sn=090343

     صورت مسئولہ میں اس بھائی کے لیے زمانہ ماضی میں یتیم بچوں اور ان کی ماں پر جو خرچ ہوا ہے ، اسے پلاٹ کی قیمت سے وصول کرنا شر عا جائز نہ تھا، ان پر ضروری ہے کہ یہ رقم بچوں اور ان کی والدہ کے حوالے کریں ۔ یتیموں کے پاس اگر مال ہے تو ان کے اخراجات ان کے مال سے پورے کیے جائیں گے ، اگر مال نہیں تو کمائی کے قابل ہونے تک دادا پر پھر چچا وغیرہ پر ان کے اخراجات کی ذمے داری ہے ،اگر چچا نے اپنے طور پرابتداءً خرچ کردیا ہے توبعد میں ان کے مال سے وصول کرنا شرعا جائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ اپنے طور پر جو کچھ خرچ کیا ہے یہ ان کی طرف سے تبرع قرار پائے گا، بعد میں بھتیجوں سے اس کا وصول کرنا شرعا جائز نہ ہوگا ۔(دیکھیں: در مختار مع رد المحتار:5/345، مطبوعة: مکتبہ زکریا، دیوبند)

    ونفقة الصبی بعد الفطام إذا کان لہ مال فی مالہ ہکذا فی المحیط وإن کان مال الصغیر غائبا أمر بالإنفاق علیہ، ویرجع فی مالہ، فإن أنفق علیہ بغیر أمرہ لم یرجع إلا أن یکون أشہد أنہ یرجع ویسعہ فیما بینہ وبین اللہ تعالی - أن یرجع، وإن لم یشہد إذا کانت نیتہ یوم دفع أنہ یرجع، وأما فی القضاء فلا یرجع إلا أن یشہد کذا فی السراج الوہاج.[الفتاوی الہندیة 1/ 562)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند