معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 175529
جواب نمبر: 17552901-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:340-266/N=4/1441
اگر آپ گورنمنٹ کے کسی شعبہ میں ملازم ہیں تو چوں کہ اِس صورت میں جی پی فنڈ پر انٹرسٹ کے نام سے ملنے والا اضافہ شرعاً سود نہیں ہے؛ لہٰذا وہ اضافہ دوبارہ درخواست دے کر جاری کرانے میں کچھ حرج نہ ہوگا۔ اور اگر آپ پرائیویٹ ملازم ہیں تو آپ کے لیے وہ اضافہ نہ پہلے جائز تھا اور نہ اب جائز ہے؛ لہٰذادرخواست دے کر اُسے جاری کرانا بھی جائز نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
گزشتہ ہفتہ دلی کے کچھ اخبارات میں ہم نے انشورنس کے بارے میں پڑھا۔ اخبار میں لکھا تھا کہ تین سو مفتیان کرام، علماء اور دیوبند اور دوسرے مدارس نے کہا ہے کہ دارالحرب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے انشورنس جائزہے۔کیایہ درست ہے؟ برائے کرم فوراً جواب عنایت کریں کیوں کہ بہت سارے مسلمان انشورنس کے لیے تیار ہیں۔
2012 مناظرمیں
ایک سرکاری ملازم ہوں میں جس کمپنی میں کام کرتاہوں وہ ایک ایسی کمپنی ہے جو خود
منافع کماتی ہے اور اس منافع سے اپنے ملازموں کو کچھ سہولتیں مہیا کراتی ہے، لیکن
ان سہولتوں پر کچھ سود بھی لیتی ہے لیکن یہ سود انسان کے مرجانے پر معاف ہے۔ ایک
خاص مسئلہ مکان کا بھی ہے جو کہ بغیر قرض لئے خریدنا ناممکن سا لگتا ہے اور کمپنی
اس کے لیے ایک بڑی رقم دیتی ہے اور وہ رقم تھوڑی تھوڑی کرکے پندرہ سالوں میں
تنخواہ سے کاٹ لیتی ہے ۔ جس وقت پورا پیسہ کٹ چکا ہوتا ہے اس وقت مکان کی قیمت ادا
کئے پیسے سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اور اگر پیسہ ادا کرنے سے پہلے آدمی مر جائے تو
پیسہ نہیں لیا جاتا بلکہ وہ انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے جو کہ پیسہ لیتے وقت کمپنی
کرواتی ہے۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں؟
میں احمد آباد گجرات کا رہنے والا ہوں ۔میں نے ۲۴/مارچ ۲۰۰۸ء کے (دویابھاسکر) گجراتی اخبار میں ایک خبر پڑھی۔ اس خبر میں لائف انشورنس اور پراپرٹی انشورنس کے بارے میں لکھا تھا۔ (۱) کہ اب مسلمان شیئر مارکیٹ میں شیئر کی خریدو فروخت کرسکتے ہیں۔ (۲) اور انھو ں نے یہ بھی لکھا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے مسلمان اپنا لائف انشورنس کراسکتے ہیں نیز وہ پراپرٹی انشورنس بھی کراسکتے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ یہ فتوی ، مسلم پرسنل لاء بورڈ ، دارالعلوم دیوبند، جماعت اسلامی ہند اورہندوستان کے دوسرے تین سو مدارس کے ذریعہ جاری کیا گیا ہے۔ مولانا صاحب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ صحیح ہے؟ (۲) گجرات کے کچھ مدارس نے بینک میں پیسہ جمع کرنے کے متعلق فتوی جاری کیا ہے۔ اس فتوی میں انھوں نے کہا ہے کہ ہم پیسہ جمع کرسکتے ہیں اور اس پیسہ پر ہم زائد رقم یعنی سود لے سکتے ہیں اور ہم اس سود کو اپنی ذاتی ضروریات میں استعمال کرسکتے ہیں اور اس کو ہم مذہبی مقاصد کے پیش نظر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ کچھ لوگ چند مدت کے لیے بینک میں پیسہ جمع کرتے ہیں اور اس مدت کے بعد ان کو دوگنا پیسہ ملتا ہے۔ برائے کرم مجھے بتائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے؟ کیا ہم اس طرح کا پیسہ اپنی ذاتی ضروریات میں استعمال کرسکتے ہیں۔ اور ان میں کے کچھ نے کہا کہ یہ پیسہ مال مباح ہے، اور میں الجھن میں پڑ گیا ہوں۔ برائے کرم قرآن اورحدیث کی روشنی میں مشورہ دیں۔ اس کی اجازت ہے یا نہیں؟
2169 مناظرقطر میں مختلف بینک اسکیم دے رہے ہیں مثلاً اگر کوئی ان کا بچت سرٹیفکٹ خریدے گا تو بینک والے اس شخص کو لکی ڈرا میں پیسہ کا انعام جیتنے کا موقع دیتے ہیں۔ نیز جب پیسہ جمع کیا جائے گا تو نہ کوئی سود لیا جائے گا اور نہ ہی کوئی سود دیا جائے گا۔اگر کوئی شخص خوش قسمت ہوتا ہے تو اس کے سرٹیفکٹ کا نمبر لکی ڈرا میں آتا ہے۔کیا میں اپنی رقم اس بینک میں صرف لکی ڈرا جیتے کی غرض سے جمع کرسکتا ہوں؟اور میری اصل رقم میں نہ تو کوئی کمی ہوگی اور نہ ہی کوئی اضافہ ہوگا۔اور میں کسی بھی وقت اپنی اصل رقم نکال سکتا ہوں۔ کیا یہ حلال ہے یا حرام ہے؟
2203 مناظر