معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 42004
جواب نمبر: 42004
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1385-1352/N=2/1434 اس رقم کے سلسلہ میں اصل حکم شرعی تو یہی ہے کہ آپ اس رقم سے دوکان نہ چلائیں اور نہ ہی اس سے کوئی اور نفع حاصل کریں، بلکہ وہ ساری رقم بلانیت ثواب غربا ومساکین پر صدقہ کردیں؛ لیکن اگر آپ کے پاس کوئی اور جائز ذریعہ معاش نہیں ہے، نیز دوکان چلانے یا کوئی اور کاروبار کرنے کے لیے آپ کے پاس اس رقم کے علاوہ کوئی جائز رقم نہیں ہے اور کہیں سے قرضہٴ حسنہ ملنے کی امید بھی نہیں ہے تو آپ ایسی صورت میں اتنی رقم کے تصدق کی پکی نیت کرکے وہ رقم دوکان میں لگاسکتے ہیں، اس صورت میں اس سے حاصل شدہ نفع پر حرام ہونے کا حکم نہ ہوگا لیکن ساتھ میں توبہ واستغفار کا اہتمام رکھیں اور جلد از جلد اتنی رقم کے تصدق کی کوشش کریں۔ واضح رہے کہ مجبوری کے علاوہ عام حالات میں یہ گنجائش نہیں ہے اس لیے اگر مجبوری نہ ہو تو فتوی کے غلط استعمال سے پرہیز کیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند