• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 150760

    عنوان: کیا زکوٰة اور قربانی کے نصاب کے تعین کے لئے موجودہ دور میں بھی چاندی کا اعتبار ہوگا؟

    سوال: نصابِ زکوٰة کے حوالے سے علماء جو رہنمائی فرماتے ہیں اُس کے مطابق ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابر مال رکھنے والا صاحبِ نصاب ہوجاتا ہے ۔ اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا اس کے برابر مال نہ بھی ہو تب بھی زکوٰة واجب ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت آج کل کوء چالیس ہزار کے آس پاس ہے ۔ یہ اتنی رقم ہے کہ اکثر لوگوں کے پاس کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتی ہے اور بہت لاچارگی اور شدید ضرورت مند ہونے کے باوجود صاحبِ نصاب بھی ہے ۔ یہاں تک کہ ایک لاغر سی گائے کا مالک بھی صاحبِ نصاب ٹھہرتا ہے چاہے گھر میں بچے بھوک سے بلک رہے ہوں، اور مزے کی بات یہ ہے کہ صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے خود زکوٰة کا مستحق بھی نہیں ٹھہرتا۔ جبکہ قربانی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے کیوں کہ چالیس پچاس ہزار کا مالک جتنی زکوٰة دے گا، قربانی پراس کے مقابلے میں چھ سے دس گنا زیادہ خرچ ہوجاتا ہے ۔ اس ضمن میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک تولہ سونا ہو اور جیب میں پانچ روپے ہو تو بھی وہ صاحبِ نصاب ٹھہرتا ہے کہ دونوں کو ملایا جائے تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت حاصل ہوجاتی ہے ۔ گویا ساڑھے سات تولے سونے والی شرط عملاً موقوف ہوچکی ہے اور نصاب کی اصل معیار صرف چاندی ٹھہرتی ہے ، پیسے یا کوء اور مال ہو تو چاندی کے حساب سے زکوٰة دینا پڑ رہا ہے جبکہ سونا ہو تو ایک تولہ سونا رکھنے والا بندہ بھی صاحب نصاب ہے کیوں کہ ہر بندہ جیب میں سو پچاس روپے ضرور رکھتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ چاندی کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسی تھی کہ ساڑھے باون تولے چاندی اور ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت برابر تھی جب کہ آج کل زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔ کیا اب زکوٰة و قربانی کا نصاب صرف سونے کو قرار نہیں دیا جاسکتا؟ اس حوالے سے رہنمائی درکار ہے ۔

    جواب نمبر: 150760

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1063-1404/L=12/1438

    چاندی ارو سونا دونوں کا نصاب منصوص اور مقرر ہے، یعنی اگر کسی کے پاس صرف سونا یا صرف چاندی ہو دیگرا موال زکاة بالکل نہ ہوں تو چاندی اور سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر سونے یا چاندی کے علاوہ کرنسی یا مال تجارت ہو تو فقہاء نے یہ ضابطہ تحریر کیا ہے کہ دراہم یا دنانیر کسی سے بھی قیمت مقرر کی جاسکتی ہے الا یہ کہ ایک سے نصاب کو پہنچتا ہو دوسرے سے نہیں تو پہلے سے نصاب مقرر کرنا متعین ہوجاتا ہے۔

    ثم في تقویم عروض التجارة التخییر یقوم بأیہما شاء من الدراہم والدنانیر إلا إذا کانت لا تبلغ بأحدہما نصابًا فحینئذٍ تعین التقویم بما یبلغ نصابا ہکذا في البحر الرائق․ (الہندیة: ۱۷۹/۱)

    اس لیے اگر کسی کے پاس اموالِ زکاة ہوں اور سونے کی قیمت کے اعتبار سے نصاب کو نہ پہنچتے ہوں؛ لیکن چاندی کی قیمت کے اعتبار سے آدمی صاحب نصاب ہوجاتا ہو تو زکاة وقربانی کے نصاب میں اسی کا اعتبار ہوگا، اس کے علاوہ جو اشکال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دونوں نصابوں کی مالیت تقریباً برابر تھی اب نہیں رہی اس لحاظ سے اب نصاب سونے سے مقرر ہونا چاہیے تو اس تعلق سے عرض یہ ہے کہ یہ محض حکمت ہے علت نہیں جو موجب ہو اور جب چاندی کا نصاب منجانب شرع مقرر ہے تو اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند