معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 156248
جواب نمبر: 15624831-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 306-267/H=2/1439
اگر اداءِ حقوق میں زید کی طرف سے کوتاہی ہوئی یا ہو رہی ہے تو اُس پر واجب ہے کہ معافی تلافی کرکے بیوی کو لاکر اپنے پاس حسن معاشرت سے رکھے اگر کوتاہی بیوی کی طرف سے ہے تو اُس پر واجب ہے کہ معافی تلافی کرلے اور دونوں کی طرف سے کوتاہی ہو تو دونوں پر واجب ہے کہ اپنی اپنی اصلاح کرکے آئندہ حسن معاشرت کے ساتھ گذر بسر کا نظام بنالیں اگر اصلاحی کوششوں کے باوجود سسرال والے نہ مانیں تو دو چار بااثر معاملہ فہم لوگوں کو بیچ میں ڈال کر مفاہمت و مصالحت کی صورت اختیار کریں نیز سسرال والوں کو چاہئے کہ بغیر کسی وجہ شرعی کے بیوی اور بیٹے سے ملاقات کی غرض سے آنے پر زید کے حق میں رکاوٹ نہ بنیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرے سالے کی شادی ایک لڑکی سے ہوئی جس کو
میرے سالے کی ماں اور بہن نیپسند کیا تھا۔شادی کے بعد میاں اور بیوی بہت زیادہ
محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ ماں کمزور اور بیمار تھی اس کی بہو
نے اس کی پوری دیکھ بھال کی اور علاج کرایا۔ لیکن ماں نے اپنے لڑکے کے ساتھ اپنی
بہو پر چلانا شروع کیا۔ لڑکا اس کو برا محسوس کرتا تھا کیوں کہ وہ اچھی طرح سے
جاننا تھا کہ اس کی بیوی اس کی ماں کی دیکھ بھال کررہی ہے اور اس کی خدمات کی وجہ
سے اس کو برا بھلا نہیں کہا جاسکتا ہے۔یہ روزانہ کا معمول بن گیا کہ ماں ہر دن اپنی
بہو پر چلانا شروع کردیتی تھی ہر معمولی چیزوں پر اس کی خدمت کونظر انداز کرکے۔ ایک
دن لڑکے نے اپنی ماں کو اپنی بیوی پر چلانے سے منع کیا جو کہ اس کی ماں کے لیے بہت
کچھ کررہی ہے۔ بیمار ماں ناراض ہو گئی اور دونوں یعنی لڑکے اور بہو پر چلانا شروع
کیا۔ لڑکا بھی ناراض ہوگیا اور کہا کہ میں نے اس کو شادی کے لیے نہیں منتخب کیا ہے
یہ تو تم نے اور میری بہن نے اس کو منتخب کیا ہے۔ غصہ میں لڑکے نے کہا کہ اگر تم
نہیں چاہتی ہو کہ میری بیوی میرے ساتھ رہے تو میں اس کو طلاق (تین مرتبہ) دیتا
ہوں۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ شوہر اس وقت اپنی ماں اور بہن کے ساتھ بحث کررہا تھا
تاہم بیوی بھی وہاں موجود تھی لیکن وہ اپنی بیوی کو براہ راست مخاطب نہیں کررہا
تھا۔وہ بہت غصہ میں تھا لیکن اس کی نیت اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینے کی تھی بلکہ
اپنی ماں اور بہن کوچڑانے کی تھی۔ میاں او ربیوی ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت کرتے
ہیں اور دونوں طرف سے جدا ہونے کی کوئی بھی نیت نہیں ہے۔مفتی صاحب اس طرح کے حالات
کے اندر جس میں شوہر طلاق کی کوئی نیت نہیں رکھتاہے لیکن صرف اپنی ماں اور بہن
کوچڑانا مقصود ہے او ربہت زیادہ غصہ کی حالت میں براہ راست اپنی ماں اور بہن کو
مخاطب کررہا تھا [جب آپ اسے پسند نہیں کرتے تو میری شادی کیوں کرائی لو اب میں اسے
طلاق دیتاہوں]۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس کا اثر ان کی شادی شدہ زندگی پر کیا ہوگا؟
اللہ ہماری مدد کرے۔ آمین
اگر
شوہر بیوی کو اور اس کے گھر والوں سے کہہ دے کہ یہ میری طرف سے فارغ ہے اسے لے جاؤ
اور یہ بات اس نے چھ یا سات دفعہ کہی ہے تو کیا فارغ کے لفظ سے طلاق واقع ہوجاتی
ہے؟
۲۵/ دسمبر ۲۰۰۷ء کومیں نے اپنی بیوی کو زبانی طلاق دی تھی، اس کے بعد اس کے بھائی اسے ا اپنے گھر لے کر چلے گئے ،اس کے گھر والوں نے اس سے بات نہ کرنے کہ مجھ پر ہر طرح کی پابندی عائد کر دی اور دھمکی بھی دی تھی، جس کی وجہ سے میں رجوع نہیں کرسکاتھا۔ ۹/ جنوری ۲۰۰۸ء کو اس کے جنم دن میں میں نے اس کو سلامی کارڈ (گریٹنگ کارڈ) پوسٹ کے ذریعہ بھیجاتھا جس میں میں نے اسے اپنی بیوی کو تسلیم کیاتھا اور اسے یقین دلایاتھاکہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔
1737 مناظرمیری
شادی جس لڑکی سے ہوئی تھی اس سے مجھے مارچ 2009میں ایک لڑکا ہوا تھا۔ لڑکا ہونے کے
کچھ دن بعد میرے گھر والوں نے اس کو ایک لڑکے سے (اس سے میری بیوی کا تین سال شادی
کا رشتہ بھی رہا تھا) فون پر بات کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا، جس سے کہ وہ لگ بھگ ایک
مہینے سے بات کرتی آرہی تھی۔ یہ بات مجھے موبائل کال ریکارڈ سے پتہ چلی، لیکن وہ
مجھ سے طرح طرح کی باتیں بتاتی رہی ہے کہ وہ مجھے بہن مانتا ہے اور کہتی رہی کہ و
ہی مجھے مس کال مار کر پریشان کرتا تھا۔ کافی باتیں بدلتی رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ
میری بیوی ہی اسے مس کال دے کر اس سے آدھا آدھا گھنٹہ بات کیا کرتی تھی ۔اور جو
باتیں گھر والوں نے سنی اس سے کہیں بھی بھائی اور بہن کا رشتہ ثابت نہیں ہوتا۔ اب
میرا دل اس کو رکھنے کو نہیں کرتا، میں اس کو طلاق دینا چاہتاہوں۔ تو کیا شرعاًیہ
ٹھیک ہوگا، اس کے لیے قرآن اور حدیث کیا کہتا ہے اور اسلامی فتوی کیا ہوگا؟
میاں اوربیوی بحث و مباحثہ کررہے تھے اور بیوی نے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا اوراس سے یہ بھی کہا کہ حق مہر کی فکر مت کرو۔ شوہر نے بیوی سے کہا کہ اس کے چچا گھر میں چندمرتبہ مہر کی رقم کا فیصلہ کرنے کے لیے گئے(شوہر نے ایسا اس بات پر تاکیدڈالنے کے لیے کہاکہ اس (بیوی) کے اہل خانہ کے لیے مہر بہت اہمیت رکھتی ہے)۔ اس کے بعد اس (شوہر) نے(اس کے چچا کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد) کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے (شوہر نے یہ مراد لیا کہ مہر کا دینا کوئی مسئلہ نہیں ہے)۔ اس کے بعد اس نے دو مرتبہ کہا، تم لوگوں کو مہر مل جائے گی (اس نے طلاق دینے کی نیت نہیں کی، لیکن اس نے یہ مراد لیا کہ مہر کا ادا کرنا کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے اورغصہ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ اور اس کے گھر والے مہر کے لالچی ہیں)۔ ان تمام بات چیت میں شوہر نے اس کو طلاق دینے کی کوئی نیت نہیں کی۔ کیا اس بات چیت سے نکاح پر اثر پڑے گا؟
1991 مناظرمیں ایک شادی شدہ لڑکی ہوں جس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف زبردستی کی گئی تھی۔ میں اپنے اس نکاح میں نہیں رہنا چاہتی۔ لیکن میرے شوہر مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے ہمارے بیچ کافی لڑائی رہتی ہے۔ میں سراسر گناہ میں مبتلا ہوں کیوں کہ میں اپنے نکاح کا کوئی حق ادا نہیں کرتی اور نہ کرسکتی ہوں۔میں اگر خلع لینا چاہوں تو اس کے لیے میرا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ میں نے آپ کے جتنے جوابات پڑھے ہیں ویب سائٹ پر اس میں آپ کسی لڑکی کو اس کے طلاق کے حق کی طرف کچھ نہیں بتاتے بلکہ سیدھی طرح سے کہہ دیتے ہیں کہ تمہارے ماں باپ کی مرضی ہے تو شادی مت توڑو۔ حالانکہ اللہ نے خلع کی اجازت دی ہے اس لیے اسے قطعی بند نہیں کرسکتے ہیں۔ناگزیر حالات جیسے میرے ہیں اس میں لڑکی کو طلاق ملنی چاہیے۔ اگر میں اس نکاح سے باہر نہ نکلی تو مجھے اپنے کفر اور بدکاری میں پڑ جانے کا خطرہ ہے جوکی سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس لیے میں اپنے گھر سے کچھ دنوں کے لیے کہیں چلی گئی اور واپس نہیں آئی۔ میں نے وہیں سے فون کیا کہ اگر مجھے طلاق دوگے تو آؤں گی ورنہ میں بنا طلاق کے کسی اور سے نکاح کرکے رہتی رہوں گی اورواپس نہیں آؤں گی۔ اس طرح سے تمہاری بدنامی بھی ہوگی۔تب کہیں جاکر میرے شوہر نے فون پر ایک ہی وقت میں ایک ساتھ تین طلاق دے دی۔ مجھے یہ بتائیں کہ کیا اس طرح یہ طلاق مانی جائے گی؟ اس جواب کو لکھتے ہوئے برائے کرم دونوں باتیں دھیان میں رکھیں کہ اگر طلاق دیتے ہوئے میرے شوہر کے پاس دو لوگ موجود ہوں تو کیا صورت ہے اور کوئی نہ ہو تو کیا صورت ہے؟ اور اگر میں اس کے طلاق دینے کی بات کو ریکارڈ کرلوں اورلوگوں کو ثبوت کے طور پر بعد میں سنا دوں او روہ سمجھ جائیں تو کیا صورت ہے؟
3649 مناظرمیرے شوہر نے دبئی کورٹ میں ججوں کی تین پینل کے سامنے 25مارچ کو مجھے طلاق دی۔ اس کے بعد کورٹ نے معلوم کیا کہ ہم یہ ثابت کریں کہ ہماری شادی قانونی تھی ،کیوں کہ میں نے ان سے کہا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا اورمیری ماں اورماموں نے میری شادی کرائی۔ میری عدت کا وقت پورا ہوگیا ہے۔ مجھے بتائیں کہ میری طلاق پوری ہوگئی ہے یا میرے شوہر کو عدت کی مدت کے بعدمجھے دو مرتبہ اور طلاق دینی ہوگی؟
1324 مناظر