• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 13659

    عنوان:

    میری شادی جس لڑکی سے ہوئی تھی اس سے مجھے مارچ 2009میں ایک لڑکا ہوا تھا۔ لڑکا ہونے کے کچھ دن بعد میرے گھر والوں نے اس کو ایک لڑکے سے (اس سے میری بیوی کا تین سال شادی کا رشتہ بھی رہا تھا) فون پر بات کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا، جس سے کہ وہ لگ بھگ ایک مہینے سے بات کرتی آرہی تھی۔ یہ بات مجھے موبائل کال ریکارڈ سے پتہ چلی، لیکن وہ مجھ سے طرح طرح کی باتیں بتاتی رہی ہے کہ وہ مجھے بہن مانتا ہے اور کہتی رہی کہ و ہی مجھے مس کال مار کر پریشان کرتا تھا۔ کافی باتیں بدلتی رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی ہی اسے مس کال دے کر اس سے آدھا آدھا گھنٹہ بات کیا کرتی تھی ۔اور جو باتیں گھر والوں نے سنی اس سے کہیں بھی بھائی اور بہن کا رشتہ ثابت نہیں ہوتا۔ اب میرا دل اس کو رکھنے کو نہیں کرتا، میں اس کو طلاق دینا چاہتاہوں۔ تو کیا شرعاًیہ ٹھیک ہوگا، اس کے لیے قرآن اور حدیث کیا کہتا ہے اور اسلامی فتوی کیا ہوگا؟

    سوال:

    میری شادی جس لڑکی سے ہوئی تھی اس سے مجھے مارچ 2009میں ایک لڑکا ہوا تھا۔ لڑکا ہونے کے کچھ دن بعد میرے گھر والوں نے اس کو ایک لڑکے سے (اس سے میری بیوی کا تین سال شادی کا رشتہ بھی رہا تھا) فون پر بات کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا، جس سے کہ وہ لگ بھگ ایک مہینے سے بات کرتی آرہی تھی۔ یہ بات مجھے موبائل کال ریکارڈ سے پتہ چلی، لیکن وہ مجھ سے طرح طرح کی باتیں بتاتی رہی ہے کہ وہ مجھے بہن مانتا ہے اور کہتی رہی کہ و ہی مجھے مس کال مار کر پریشان کرتا تھا۔ کافی باتیں بدلتی رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی ہی اسے مس کال دے کر اس سے آدھا آدھا گھنٹہ بات کیا کرتی تھی ۔اور جو باتیں گھر والوں نے سنی اس سے کہیں بھی بھائی اور بہن کا رشتہ ثابت نہیں ہوتا۔ اب میرا دل اس کو رکھنے کو نہیں کرتا، میں اس کو طلاق دینا چاہتاہوں۔ تو کیا شرعاًیہ ٹھیک ہوگا، اس کے لیے قرآن اور حدیث کیا کہتا ہے اور اسلامی فتوی کیا ہوگا؟

    جواب نمبر: 13659

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 957=957/م

     

    طلاق شریعت میں ابغض المباحات ہے، یعنی مباح اور حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے، پس بلا شرعی ضرورت طلاق دینے سے احتراز کرنا چاہیے، فقہاء نے لکھا ہے کہ فاجرہ عورت کو بھی طلاق دینا شوہر پر واجب نہیں۔ صورت مسئولہ میں بیوی کا اجنبی لڑکے سے بذریعہ موبائل بات کرنا بلاشبہ ناجائز کام ہے، لیکن فوراً اس کی وجہ سے طلاق پر اقدام نہ کریں اور پہلے اس کو حکمت ونرمی سے سمجھانے کی کوشش کریں، افہام و تفہیم کے ذریعہ نباہ کی ہرممکن کوشش کریں، امید ہے کہ بیوی کو اپنے برے فعل پر ندامت ہوگی اور وہ آئندہ اس سے تائب ہوجائے گی، اور کوشش کریں کہ موبائل اس کے پاس ہی نہ رہے تاکہ غلط استعمال نہ کرپائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند