• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 3661

    عنوان:

    ۲۵/ دسمبر ۲۰۰۷ء کومیں نے اپنی بیوی کو زبانی طلاق دی تھی، اس کے بعد اس کے بھائی اسے ا اپنے گھر لے کر چلے گئے ،اس کے گھر والوں نے اس سے بات نہ کرنے کہ مجھ پر ہر طرح کی پابندی عائد کر دی اور دھمکی بھی دی تھی، جس کی وجہ سے میں رجوع نہیں کرسکاتھا۔ ۹/ جنوری ۲۰۰۸ء کو اس کے جنم دن میں میں نے اس کو سلامی کارڈ (گریٹنگ کارڈ) پوسٹ کے ذریعہ بھیجاتھا جس میں میں نے اسے اپنی بیوی کو تسلیم کیاتھا اور اسے یقین دلایاتھاکہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔

    سوال:

    ۲۵/ دسمبر ۲۰۰۷ء کومیں نے اپنی بیوی کو زبانی طلاق دی تھی، اس کے بعد اس کے بھائی اسے ا اپنے گھر لے کر چلے گئے ،اس کے گھر والوں نے اس سے بات نہ کرنے کہ مجھ پر ہر طرح کی پابندی عائد کر دی اور دھمکی بھی دی تھی، جس کی وجہ سے میں رجوع نہیں کرسکاتھا۔ ۹/ جنوری ۲۰۰۸ء کو اس کے جنم دن میں میں نے اس کو سلامی کارڈ(گریٹنگ کارڈ)پوسٹ کے ذریعہ بھیجاتھا جس میں میں نے اسے اپنی بیوی کو تسلیم کیاتھا اور اسے یقین دلایاتھاکہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔ ۱۷/ جنوری ۲۰۰۸ ء کو میں نے ایک تحریر تیار کرکے اپنے اور دوگواہ کے دستخط کے ساتھ پوسٹ کے ذریعہ اپنی بیوی، اس کے والد اور اس کی والدہ کے نام بھیجا تھا ، اس میں یہ وضاحت تھی کہ میں نے رجوع کر لیاہے ۔ مزید برآں میں رجو ع کے بارے میں اس کے بھائیوں ، بہنوں اور بہنیوں کو ایس ایم ایس بھیجا تھا کہ میں رجو ع کرتاہوں اور انہیں یہ بھی کہاتھاکہ میری بیوی کو اس بارے میں اطلاع دید یں گے۔ واضح رہے کہ اس کی عدت کے درمیان میں نے رجوع کیاہے۔ میرے رجوع کرنے پر اس کے رشتہ دار مجھ پر خفا ہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے میرے رجسٹری کئے ہوئے کاغذات وصول کئے ہیں یا نہیں، لیکن انہوں نے جارحا نہ انداز میں میرے ایس ایم ایس کاجواب دیاتھا۔ وہ میری بیوی کومیرے پاس بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ اس کو طلاق دینے کے لیے مجھ پر دباؤڈا ل رہے ہیں۔اس کے والدین کہہ رہے ہیں کہ تمہاری بیوی بھی طلاق چاہ رہی ہے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ میرا رجوع شریعت کے مطابق درست ہے یا نہیں؟ میں نے اللہ کی خاطر اور امن، محبت اور دوبارہ سمجھوتہ کی خاطرکیاہے۔اگر میری بیوی میرے رجوع کو نہ مانے تو کیا اس کا انکار کرنا درست ہے؟ کیا اس کے والدین کو ہمارے سمجھوتہ اور دوبارہ اتحاد کے طریق کار میں رخنہ ڈالنے حق ہے؟

    جواب نمبر: 3661

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 563/ ب= 455/ ب

     

    اگر زبانی طور پر ایک یا دو طلاق صریح دی ہے، پھر عدت کے اندر تحریری طور پر آپ نے دو گواہوں کے سامنے رجوع کرلیا ہے تو آپ کی یہ رجعت صحیح ہوگئی خواہ بیوی اور اس کے میکے والے راضی ہوں یا نہ ہوں۔ بیوی کے والدین کو آپ دونوں کے سمجھوتہ میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ صلح ومصالحت کرلینی چاہیے، قرآن پاک میں آیا ہے: اَلصُّلْحُ خَیْرٌ صلح کرلینا بڑھیا بات ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند