• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 147425

    عنوان: کیا عورت طلاق نافذ کروا سکتی ہے ؟

    سوال: زید اور ہندہ کی شادی 1978 میں ہوئی۔ دونوں پڑھے لکھے ہیں ،گریجویٹ ہیں اور دیندار بھی ہیں،اچھّے خاندانوں سے ہیں ۔دونوں میں آپس میں محبت سے نبھتی رہی۔لیکن ہندہ بے حد شریف اور دیندار ہونے کے باوجود مزاج میں بہت ضدّی پن رکھتی ہے ۔زید بہت فکر مند تھاکہ ہندہ کا ضدّی پن کِس طرح دور کرے ۔شادی کے تین سال بعد 1981میں زید نے ہندہ کو ڈرانے کے لئے ایک طلاق دی تھی۔فوراً ہی رجوع بھی کر لِیا۔کچھ دِن بعد پھر دوسری بار طلاق دی اور فوراًرجوع بھی کیا۔ (دونوں دفعہ صرف یہ نیت تھی کہ \"فقط ڈرانا مقصودہے ، طلاق دینے کی ہرگز نیت نہیں تھی\")اِن دو طلاقوں کے بعد جب زید نے دیکھا کہ ڈرانے کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے تو اُس نے اِس معاملے میں آگے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔دونوں آپس میں پیار محبت سے رہتے رہے ۔اِس دوران اُن کو تین بچے بھی پیداہوئے ۔ہندہ اِنتہائی با اخلاق اور شریف ہونے کے باوجود اُس کے بے حد ضدی ر ویہ کی وجہ سے زیدشدید پریشان رہتا تھا۔آپسی محبت کے باوجود دونوں میں اِسی سبب جھگڑے بہت ہوتے رہے ۔ اِس کے باوجود بھی زندگی پُرسکون گزرتی رہی۔قریب 1995 میں کسی نے زید کو بتایا کہ پہلی طلاق رجعی، دوسری بائن اور تیسری مغلظہ ہوتی ہے ۔ اِس طرح زید کی دو طلاقیں یعنی طلاق بائن ہو چکی ہے ، نکاح دہرائے بغیر بیوی کے ساتھ رہنا غلط تھا، اور غلط ہے ۔کبھی کوئی کہتاکہ دونوں طلاقیں رجعی تھیں،بے اِطمینانی کی کوئی ضرورت نہیں۔بہر حال بارہ پندرہ سال زید بہت کشمکش میں رہا۔B.P. ; sugar میں مبتلا ہو نے کے علاوہ زید کو اکثر اوقات سینے میں درد کے ایسے دورے پڑتے کہ جان بچنامحال لگتا۔اِس طرح سے دونوں کی زندگی خراب گزری۔لیکن مزید تحقیق کے بعد قریب 2010 میں زید کو مکمل اِطمینان ہوا کہ دونوں طلاق رجعی تھیں، ساتھ میں رہنا کوئی غلط نہیں ہے ۔لیکن مزاج آپس میں ناملنے کی وجہ سے زید اور ہندہ میں آپسی کشیدگی اور جھگڑے بہت ہوتے رہے ۔2005 سے ہندہ نے زید کے بیڈ روم میں سونا بند کردِیا، لیکن رات میں بلانے پر وہ کبھی کبھار زید کے بڈ روم میں آکر لیٹتی ،اور وہ بغیر پس و پیش کے محبت سے رہتے ہیں۔لڑتے جھگڑتے زندگی بہ خوبی گزرتی رہی۔زید نے اپنے بزرگوں سے ہندہ کے ترش رویّہ کی شکایت کی،اُنہوں نے یہی بتایا کہ ہندہ شکایت کرتی ہے کہ تم بہت گالیاں دیتے رہتے ہو۔زید نے قبول کیا کہ بہت سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانتی تو بے بس و مجبور ہو کر اکثر اُس کے مُنہ سے کچھ ہلکی گالیاں نکلتی رہی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اُس کی ماتحتی میں تیس پینتیس اساتذہ ہیں اُن کو کبھی بھی گالی نہیں دی۔ گورنمنٹ آفس میں چھ سات افسران کے علاوہ تیس چالیس کلاس چار کے مزدور بھی ماتحت ہیں ، کبھی اُن میں سے کسی کو کبھی گالی نہیں دی۔کسی پڑوسی، ساتھی یا کسی دُشمن کو بھی گالی دینے کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ ایسا نہیں کہ بیوی کو نرم چارہ سمجھ کر بے تکان گالی دی، بلکہ بہت ہٹ دھرمی کرنے پر بے بسی کے عالم میں چند ہلکی گالیاں منہ سے نکلتی رہیں۔ اِس پر بھی وہ معافی کا خواستگار ہے اور قریب 2012 کے بعد سے اُس نے اپنی زبان پر لگام لگا دیا اور گالی دینا بند کردیا۔\n2010 میں زید نوکری سے ریٹائر ہوا اَور 2012 میں ہندہ بھی ریٹائر ہو کر پنشن یافتہ ہو گئی۔لڑکے بڑے ہو کر اچھے روزگار سے لگ گئے اور ماں کے طرف دار ہیں۔ہندہ کے میکے میں ایک بڑا کھیت تھا ،شہروہاں تک پھیل جانے سے وراثت میں ہندہ کو کئی کروڑ روپیہ کا ترکہ ملا۔ اب ہندہ معاشی طور پر، جسمانی طور پر اورجذباتی طور پر بھی مکملindependent ہو گئی۔اور اِسی دوران اُس کھیت کے بارے میں ہندہ کی والدہ نے زید پر جھوٹا اِلزام لگایا کہ زید نے سسرال کی جائداد میں خُردبُرد کیا اور لوٹ لیا۔ہندہ اچھی طرح جانتی ہے اور مانتی بھی ہے کہ یہ الزام سراسر جھوٹ ہے ۔ لیکن ماں کی طرف داری میں ہندہ جو پہلے سے ہی شوہر سے ناراض ہے اب اپنے شوہر کی مکمل دُشمن بن گئی۔اب 2013 کے بعد سے ہندہ نے زید سے بات کرنا، قریب آنا یا قریب آنے دینا سب کچھ بالکل بند کردیا۔اُس کا اب یہ کہنا ہے کہ سن 1981 میں دو نہیں بلکہ تین سے زائد بار طلاق دی گئی تھی۔اب ہندہ اپنے آپ کو مطلقہ گردانتی ہے ۔ذیل کی باتیں غور طلب ہیں؛ 1. کیا عورت خود پر طلاق نافذ کر سکتی ہے ؟ 2. یہ بھی اِمکان ہے کہ زید جدائی کے خوف سے یا طلاق کی رُسوائی سے بچنے کے لئے جھوٹ کہہ رہا ہے ، یا دو کے بعد والی طلاق بھول گیا ہے ۔لیکن زید ایسا جھوٹا شخص نہیں ہے ۔زید کہتا ہے کہ طلاق دینے میں وہ خودفاعل ہے اور وہ بخوبی جانتا ہے کہ دو بار طلاق دینے کے بعد وہ رُک گیا تھا۔زید کی یاد داشت یا ہندہ کی یاد داشت پر اِنحصارکرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ 3. زید کہتاہے کہ مرد اگردو دفعہ کا اقرار کرے اور عورت تین پر بہ ضد ہو تو مرد کی بات کا اعتبار ہوگا۔ 4. مردکو یا کسی کو بھی ایک یا دو میں شک ہو تو ایک کا شمار اور دو اور تین میں شک ہو تو دو کا شمار ہوگا۔ 5. اگر ہندہ کو 1981 میں ہی یقین تھاکہ تین سے زائد طلاقیں ہو چکی ہیں۔توجب کہ وہ پڑھی لکھی ہے ، ایک ذمہ دار ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر فائز رہنے کے علاوہ بلاشبہ بہت دین دار اور با اخلاق ہے ، تو کیسے اتنے سال زید کی زوجیت میں گزارے ؟صاف دکھائی پڑتاہے کہ معاشی طور پر، جسمانی طور پر اورجذباتی طور پر بھی مکمل independent ہو نے کے بعد ضد میں آکر بعد میں لِیا ہو ا فیصلہ ہے ۔یہ ایک طرح سے after thought ہے ۔ 6. لیکن اِس بات کو بھی نظر انداز نہیں کِیا جا سکتا کہ ہندہ بہت دیندار اور با اخلاق ہے ۔ اور اِس طرح جھوٹ کا سہارا لے کرشوہر سے الگ ہونے کی سازش نہیں کرے گی۔ لیکن اپنی بے جا ضد اور انا نے شاید اُس کا دماغ ماؤف کردیا۔ پھر ماں کے بہکانے سے ، ماں کی محبت میں دماغ بالکل شل ہو گیا۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ دماغ یاد داشت کے معاملے میں دِل کا ساتھ دیتا ہے ۔نماز میں تیسری رکعات چل رہی ہے یا چوتھی چل رہی ہے اِس میں وسوسہ پیدا ہوا تب اگر ہمیں فرصت ہو تو دماغ کہتا ہے کہ تین ہی ہوئی ہیں اور چوتھی پڑھنا باقی ہے ۔ اور اگر فرصت نہ ہو ،سجدہ سہو کرنے میں یا نماز دُہرانے میں سُستی ہو تو دماغ کہتا ہے کہ چار مکمل ہوئی ہیں، کوئی وسوسہ کی ضرورت نہیں۔یہ صرف ہندہ کی ضد کا اور ہندہ نے اپنی ماں کے بہکاوے میں آنے کامعاملہ لگتا ہے ۔ صرف گالیاں دینے کا اور ماں کو دھوکا دینے کا غلط اِلزام لگا کر شوہر کو اِتنی بڑی سزا دینا۔ اِسی ضد نے تمام زندگی خراب کرکہ رکھ دی اب آخری وقت سکون سے گزرے تو وہی ضد آڑے آرہی ہے ۔ اب اچانک چند سال سے ہندہ نے زید سے ہر طرح کاتعلق مکمل طورپر ختم کردِیاہے ۔ شائد ہندہ نے بچّوں کو بھی طلاق والی بتادی ہے اِس لئے بچّے بھی باپ سے بات چیت نہیں کرنا چھوڑ دِئے ، عید کو سلام تک نہیں کرتے ۔ بچّوں نے بھی اور بہو نے بھی زید کو گھر میں بالکل الگ تھلگ کر رکھا ہے اوربات چیت بالکل بند کردی ہے ۔کھانا بیڈ روم میں تپائی پر لا کر رکھ دِیا جاتا ہے ۔زید کا لڑکا نہ صرف بات چیت یا عید برات کو سلام نہیں کرتا بلکہ جب اُس کے لئے شادی کی بات کہیں چلائی جا رہی ہے تو لڑکے کی ضد ہے کہ باپ اُس کے رشتہ کی کسی بات چیت میں شامل نہ رہے ، بلکہ شادی میں بھی اگر باپ آجائے تو مَیں منڈپ سے ہی نکل جاؤں گا۔زید گھر میں یکا و تنہا ہو گیا ہے ، زندگی اجیرن ہیو گئی ہے ۔زید صبح گھر سے نکل جاتاہے اور رات کو گھر آ کر سو جاتا ہے ۔ کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے ۔کبھی کبھار جب رات کو سینے میں درد اُٹھتا ہے تو کوئی حال دریافت کرنے والا نہیں ہوتا۔اگر اِس حالات میں روح بھی پرواز کرجائے تو صبح نَو دس بجے تک کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔چونسٹھ سالہ زید بے حد مایوس اور غمگین ہے اور چاہتا ہے کہ چونکہ خود کشی تو حرام ہے لیکن وہ فلسطین یا افغانستان جاکرمظلوموں کی خدمت میں زندگی گزارے یا ختم کردے ۔ یا پھرذیل کی دو میں سے کوئی صورت ہو؛ 1. ہندہ حق کو سمجھ لے اورزید کو اپنا شوہر مان لے اور سب مِل کر ہنسی خوشی رہیں۔ 2. اگرہندہ حق ماننے پر تیار نہ ہو اورتین طلاق ہونے پر ہی بہ ضدرہے اور زید کو شوہر ماننا ہی نہ چاہے تو اِسی طرح گھر میں فاصلہ بنائے رہے لیکن بچّے ، بہو اور خود ہندہ ،زید کے ساتھ گھر میں صرف ہنس کھیل کر بات چیت ہی کِیا کریں۔قطع کلامی نہ کریں۔برائے کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہِدایات دی جا سکتی ہیں . . . . . \1) زید کو (2) ہندہ کو اور(3) زید کے لڑکے کو۔

    جواب نمبر: 147425

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 393-445/M=4/1438

    (۱تا ۶) طلاق دینے کا حق اصالةً مرد (شوہر) کو حاصل ہے، عورت از خود اپنے اوپر طلاق واقع نہیں کرسکتی ہاں اگر شوہر ہی نے عورت کو اپنے نفس پر طلاق واقع کرنے کا حق سونپ دیا ہو تو جن شرائط کے ساتھ تفویض طلاق کیا ہو ان شرائط کے تحقق کے وقت عورت کو اپنے نفس پر طلاق نافذ کرنے کا حق ہوگا، شوہر اگر دو طلاق کا اقرار کرے اور عورت تین طلاق کا دعویٰ کرے تو عورت کے ذمہ بینہ (شرعی شہادت) پیش کرنا ہوگا، اگر عورت کے پاس بینہ نہ ہو تو شوہر کی بات بحلف معتبر ہوگی؛ لیکن عورت اگر کہے کہ میں نے صاف طور پر اپنے کان سے تین مرتبہ طلاق کا لفظ سنا ہے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے تو ایسی صورت میں عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ شوہر سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھے اور شوہر کو اپنے اوپر قدرت نہ دے اوراس اختلافی معاملے کو مقامی یا قریبی شرعی پنچایت سے حل کیا جائے، زید (شوہر) کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی رسوائی اور تکلیف آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہے اس لیے دنیا والوں کی ملامت کا خوف نہ کرتے ہوئے صحیح صورت حال بتادے اگر تین طلاق واقعةً دیدی ہے تو اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور ہندہ (بیوی) کو چاہیے کہ اپنی بے جا ضد اور انا کو ختم کرنے کی کوشش کرے، اور شوہر کے مقام ومرتبہ کو سمجھے اور شوہر پر بے بنیاد الزام لگانے سے باز آئے اور خدا کا اور آخرت کا خوف دل میں رکھتے ہوئے صاف اور سچ بتادے کہ شوہر نے کتنی طلاق دی ہے؟ اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی ہرممکن خدمت کرے صرف ماں کی اطاعت کو کافی نہ سمجھے بلکہ باپ کی اطاعت کو بھی بجالائے بشرطیکہ خدا اور رسول کی ناراضگی لازم نہ آئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند