• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 171607

    عنوان: آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے کا حکم آیتوں میں تعارض اور اس کا حل

    سوال: میرے دو سوال ہیں، امید ہے ان کا جواب دیا جائیگا۔۱ /کیا نماز میں آنکھیں بند کرنا جائز ہے، در اصل مجھے نماز میں آنکھیں بند کرکے concentration ﴿توجہ ﴾اللہ کی طرف رہتا ہے ورنہ ادھر ادھر بھٹک جاتا اگر آنکھیں بند نہ کریں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ قرآن مجید میں کہتا ہے کہ ہر کسی کو مرنا ہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالی شہیدوں کے بارے میں کہتا ہے ان کو مردہ مت کہو! کیا یہ بات پہلی بات سے نہیں ٹکراتی ہے؟ مہربانی کرکے ان سو الات کے جواب ضرور دیں۔

    جواب نمبر: 171607

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:940-835/N=12/1440

     

    (۱): آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا خلاف سنت اور مکروہ تنزیہی ہے اور نماز میں خشوع کے لیے قیام کی حالت میں نگاہ سجدہ کی جگہ، رکوع میں پنجوں پر، سجدے میں ناک کے بانسے پر، قعدہ میں گود میں اور سلام کے وقت دائیں، بائیں مونڈھے پر رکھنی چاہیے ۔ اور اگر کسی کو اس کے باوجود خشوع نہ ہوتا ہو تو وہ خشوع کے لیے آنکھیں بند کرکے نماز پڑھ سکتا ہے۔

    و-کرہ- تغمیض عینیہ للنھي إلا لکمال الخشوع (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب مایفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲: ۴۱۳، ۴۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قوہ: ”للنھي“: أي: في حدیث ” إذا قام أحدکم في الصلاة فلا یغمض عینیہ“ رواہ ابن عدي إلاأن في سندہ من ضعف، وعلل في البدائع بأن السنة أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ وفي التغمیض ترکھا، ثم الظاھر أن الکراھة تنزیہیة کذا في الحلبة والبحر، وکأنہ لأن علة النھي ما مر عن البدائع، وھي الصارف لہ عن التحریم، قولہ: ”إلا لکمال الخشوع“: بأن خاف فوت الخشوع بسبب روٴیة ما یفرق الخاطر فلا یکرہ؛ بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی، ولیس ببعید، حلبة وبحر (رد المحتار)، ولھا آداب ترکہ لا یوجب إساء ة ولا عتاباً کترک سنة الزوائد؛ لکن فعلہ أفضل، نظرہ إلی موضع سجودہ حال قیامہ وإلی ظھر قدمیہ حال رکوعہ وإلی أرنبة أنفہ حال سجودہ وإلی حجرہ حال قعودہ وإلی منکبہ الأیمن والأیسر عند التسلیمة الأولی والثانیة لتحصیل الخشوع (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۲: ۱۷۵، ۱۷۶)۔

    (۲): قرآن پاک میں اللہ تعالی نے شہیدوں کے بارے میں جو فرمایا ہے کہ انھیں مردہ مت کہو(سورہٴ بقرہ، آیت:۱۵۴)، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شہیدوں کو موت نہیں آتی: بلکہ انھیں بھی عام انسانوں کی طرح موت آتی ہے ، یعنی: ان کی دنیوی حیات ختم ہوجاتی ہے؛ البتہ شہداء کو عالم برزخ میں ایک خاص قسم کی جسمانی وروحانی حیات حاصل ہوتی ہے، جس میں وہ مختلف لذات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور وہ حیات چوں کہ برزخی ہے، دنیوی نہیں؛ اس لیے اہل دنیا کو اُس کا ادراک وشعور نہیں ہوتا ؛ اسی لیے آگے ارشادخداوندی ہے: بل أحیاء ولکن لا تشعرون، یعنی: بلکہ وہ زندہ ہیں ؛ لیکن تم لوگ ان کی اس حیات کا شعور وادراک نہیں کرسکتے؛ لہٰذا دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند