• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 610248

    عنوان:

    قرض دی گئی رقم پر زکات کا کیا مسئلہ ہے؟

    سوال:

    ایک شخص کو میں نے قرض دیا اب چار پانچ سال ہوگئے، ابھی تک وصول کرنے کا کوئی امکان نہیں ، اگر 20 سال بعد مجھے یہ رقم وصول ہوئی تو کیا زکوٰۃ 20 سال کی ادا کرنا ہو گی یا صرف ایک سال کی؟

    جواب نمبر: 610248

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1010-778/L=8/1443

     مذكورہ بالا صورت میں اگر قرض كے ملنے كی نا امیدی ہوجائے اور پھر اچانک بغیر کسی امید کے مل جائے تو گذشتہ ایام کی زکاۃ واجب نہ ہوگی؛ البتہ اگر قرض کے ملنے کی امید ہے اگرچہ تاخیر سے صحیح‏، یا دونوں احتمال ہوں کہ ملے یا نہ ملے تو ایسے قرض پر حسب شرائط زکاۃ واجب ہوگی؛ البتہ جب تک قرض وصول نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں؛ ہاں جب وصول ہوجائے یا جس قدر وصول ہوتا رہے تو شرائط زکاۃ کی رعایت کرتے ہوئے اس سال کی اور گزشتہ تمام سالوں کی زکاۃ ادا کر دی جائے۔ (مستفاد:از فتاوی عثمانی ؍ج ۲؍ص ۷۶؍ط زكریا دیوبند)۔ (و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم ... (قوله: عند قبض أربعين درهما) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لا تجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج فكذلك لا يجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج.وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ.[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 2/ 305]


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند