• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 603870

    عنوان:

    گھریلو استعمال كے سامانوں پر زكاۃ ہے یا نہیں؟

    سوال:

    کیا گھر میں موجود گھریلو سامان مثلاً برتن،بستر ، فرنیچر جو والدین کی طرف سے اپنی بیٹی کو دیئے گئے ہوں اور سارا سال ان کے استعمال کی نوبت نہ آئے لیکن ہوں وہ سب استعمال کی نیت سے ان پر زکوٰة لازم ہوتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

    جواب نمبر: 603870

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:653-501/N=8/1442

     گھر میں گھریلو استعمال کا جو سامان ہوتا ہے خواہ وہ روز استعمال کا ہو یا کبھی کبھار استعمال کا یا استعمال کی نیت سے گھر میں ہو اور پورے سال اس کے استعمال کی نوبت نہ آتی ہو یا سالوں میں کبھی استعمال کی نوبت آتی ہو، اُس پر زکوة نہیں، زکوة صرف سونا، چاندی، کرنسی اور فروخت کرنے کی نیت کردہ خرید کردہ چیزوں پر ہوتی ہے؛ البتہ جس شخص کے پاس حوائج اصلیہ (بنیادی ضروریات) سے زائد اس طرح کا کوئی سامان بہ قدر نصاب مالیت کا ہو تو اُس کے لیے زکوة، فطرہ وغیرہ لینا جائز نہ ہوگا۔

    (وسببہ) أي: سبب افتراضھا (ملک نصاب حولي)……(تامٍ) … ( فارغ عن دین لہ مطالب من جھة العباد) … (و) فارغ ( عن حاجتہ الأصلیة) … ( نامٍ ولو تقدیراً) بالقدرة علی الاستنماء ولو بنائبہ۔……(فلا زکاة …… في ثیاب البدن) المحتاج إلیھا لدفع الحر والبرد، ابن ملک (وأثاث المنزل ودور السکنی ونحوھا) وکذا الکتب وإن لم تکن لأھلھا إذا لم تنو للتجارة غیر أن الأھل لہ أخذ الزکاة وإن ساوت نصباً إلا أن تکون غیر فقہ وحدیث وتفسیر أو تزید علی نسختین منھا ھو المختار إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الزکاة، ۱۷۴ - ۱۸۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۴۲۲ - ۴۴۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”وأثاث المنزل إلخ“: محترز قولہ: ”نام ولو تقدیراً“، وقولہ: ”ونحوھا“: أي: کثیاب البدن الغیر المحتاج إلیھا وکالحوانیت والعقارات (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند