• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 56625

    عنوان: كیا وكیل زكاة كی رقم معطی كی مرضی كے خلاف دے سكتا ہے؟

    سوال: کیافرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسٴلے کے متعلق کہ زید ایک سرکاری اسپتال میں ڈاکٹرہے اور شعبہ ڈأیلیسزکاذمہ دارہے ۔تنخواہ زیدکوحکومت کی طرف سے ملتی ہے ۔مگرزید کے شعبے میں مریضوں کاعلاج کچھ ہمدردان ملت کی زکوةسے ہوتاہے ۔زیدنے اپنے شعبے میں علاج کرانے والے مریضوں کے لیٴے ایک اقرار نامہ بنوایا جس میں مریض اقرارکرتاہے کہ میں مستحق زکوة ہوں۔میراعلاج مدزکوة سے کیاجاے ٴ۔مگرزیدنے یہ محسوس کیاکہ مسلمان غیرمسلمان مستحق اور غیرمستحق سب ہی اقرارنامہ پڑھکراس پردستخط کردیتے ہیں۔واضح رہے کہ زید کے شعبے میں تمام علاج معالجہ بالکل مفت ہے ۔زید کی کوشش ہوتی ہے کہ صرف مستحق حضرات ہی مد زکوة سے علاج کرایٴں۔چونکہ مریض آتے ہیں تو بعض دفعہ مریض کی حالت اتنی سیریس ہوتی ہے کہ اقرار نامہ پر دستخط لیٴے بغیرہی علاج شروع کردینا پڑتاہے ۔ زید چاہتاہے کہ نیا اقرارنامہ میں مستحقین کے لیٴے ایسے اقراریہ کلمات ڈالے جایٴں کہ

    جواب نمبر: 56625

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 61-26/Sn=2/1436-U سوال کے اخیر سے کچھ حصہ چھوٹ گیا؛ اس لیے منشأ سوال واضح نہیں ہوا، پوری وضاحت کے ساتھ دوبارہ سوال کرنے پر ہی جواب ممکن ہے؛ البتہ اتنا عرض ہے کہ زکاة کی رقم مستحق مسلمان کو دینا ضروری ہے، غیرمسلم یا غیر مستحق کو زکاة دینے کی صورت میں زکاة ادا نہ ہوگی؛ بلکہ ہسپتال کے ذمے داران جنھیں زکات دہندگان نے مستحق زکاة مریض کے علاج میں خرچ کرنے کا وکیل بنایا وہ اس کے ضامن ہوں گے، ان پر ضروری ہے کہ زکاة دہندگان کی اجازت سے دوبارہ اس قدر رقم اپنی طرف سے غریبوں کو دیں، إذا قیدت الوکالة بقیدٍ فلیس للوکیل مخالفتہ الخ (شرح المجلہ رستم باز: ۲/۴۹۴، الفصل الثانی، الوکالة بالشراء) وفي رد المحتار: ․․․ الوکیل إنما یستفید التصرف من الموٴکل وقد أمرہ بالدفع إلی فلان فلا یملک الدفع إلی غیرہ کما لو أوصی لزید بکذا لیس للوصي الدفع إلی غیرہ (۳/۱۸۹، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند