• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 605132

    عنوان: قرض كی  رقم پر زکات 

    سوال:

    میں ایک سرکاری ملازم ہو اللّہ کے فضل سے اچھی تنقوہ ملتی ہیں بعض لوگ یعنی دوست یا رشتے دار میرے پاسس آکر اپنی ضرورت سنا کر پیسے قرض مانگتے ہیں اور میں انکو اس نیّت سے دیتا ہو کے بغیر سود کے دینے کا ثواب ملتا ہیں ۔ایک مفتی صاحب کو میں انکے ایک اسلامک اسکول رکھنے کرنے کے لئے ۲۰۰۰۰۰روپے دیا ہو اور ایک مولانا جو ہمارے رشتے دار بھی ہی انکو بھی ۲۰۰۰۰روپے قرض حسنہ کے طور پر دیا ہو ایسے ہی دوسرے احباب کو ملاکر کل ۳۵۰۰۰۰روپے قرض دیا ہو ۔ان تمام کو دیکر تقریبن ۲سال گزر گئے ۔یہ لوگ مجھے پیسے واپس بھی نہیں کر رہے ہیں یا تو بعض کو پوچھنے کی نوبت نہیں آرہی ہی ( لاک دوں ) کی واضح سے ۔ اب مثلا یہ ہیں کے مجھے ان تمام رقم پر زکات ادا کرنا پڑھ رہا ہی جو مجھے . بعض مرتبہ بوجھ محسوس ہو رہا ہی . اور دل . میں ایسا خیال آتا ہیں کے میں کیوں اسطرح پیسے دوسرو کو . دیکر پریشان ہوجاوو اسلئے آیندہ اگر کوئی پوچھے تو نہ دو ۔ کیا میرا ایسا سوچنا صحیح ہیں ؟ جن پیسو کا میں استمال بھی نہیں کر رہا ہو زکات تو دینا پڑھ رہا ہی بعض مرتبہ بوجھ ہو رہا ہیں ۔ اس رقم کے علاوہ میرے پاس ماہانہ کا تنقہ ہی ہوتا ہیں ۔ اور میرے پاس کوئی ذاتی زمین یا گھر بھی نہیں ہیں ۔ایسے سورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

    جواب نمبر: 605132

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1247-877/H=11/1442

     قرض دینا بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے، تاہم شرعاً اِس کی حیثیت تبرع کی ہے۔ آپ کسی ضرورت مند کی ضرورت کا لحاظ کرکے قرض دیدیں گے دنیا و آخرت میں اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اگر نہیں دیں گے تو اجرو ثواب نہیں ملے گا، لیکن گناہ کا موجب بھی نہیں۔ جو لوگ قرض لیتے ہیں اُن پر واجب ہے کہ جب اداءِ قرض کا مقررہ وقت آگیا تو قرض کو اداء کردیں، بغیر کسی سخت مجبوری کے اداءِ قرض میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ حدیث شریف میں یہ مضمون صاف و واضح وارد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور معلوم کرنا چاہتے ہوں تو اس کو صاف و وضاحت سے لکھ کر معلوم کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند