عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 42910
جواب نمبر: 42910
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 571-553/N=5/1434 (۱) جی ہاں! مستحقین زکاة میں سے جس کو بھی زکاة دی جائے زکاة ادا ہوجائے گی، البتہ بعض مستحقین زکاة کو زکاة دینا دوسروں سے افضل وبہتر ہوتا ہے، جب کہ کسی وجہ سے وہ دوسروں سے زیادہ استحقاق رکھتے ہوں یا انھیں دینے میں مزید کچھ اعمال خیر متحقق ہوتے ہوں جیسے رشتہ داروں کو زکاة دینا کیونکہ انھیں دینے میں صلہ رحمی بھی ہے، سخت ضرورت مند یا مقروض کو زکاة دینا کیونکہ وہ اوروں سے زیادہ اعانت کا محتاج ہے، مدارس کے طلبہ کرام کو زکاة دینا کیونکہ انھیں دینے میں علم دین کی نشر واشاعت میں تعاون کرنا بھی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا زکاة دہندہ انھیں اوروں پر مقدم رکھے۔ (۲) یہ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے جسے علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد (۳:۲۹۷) میں معجم اوسط للطبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے، البتہ اس میں ایک راوی عبدا للہ بن عامر اسلمی ضعیف ہے۔ حدیث میں صدقہ کا لفظ ہے جو زکاة کے علاوہ دیگر صدقات کو بھی شامل ہے، اور قبول نہ ہونے کا مطلب: ثواب نہ ملنا ہے۔ (۳) حولان حول سے پہلے ادائیگی زکاة کی صورت میں ایک شہر سے دوسرے شہر زکاة بھیجنا بلاکراہت جائز ہے اور سال مکمل ہوجانے کے بعد عام حالات میں زکاة منتقل کرنا مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ ہے، اور اگر دوسرے شہر میں اپنے مستحق زکاة رشتہ دار ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں یا دوسرے شہر میں کوئی مدرسہ ہو جہاں مستحق زکاة طلبہ علم دین حاصل کرتے ہوں تو سال مکمل ہونے کے بعد بھی اس شہر میں زکاة بھیجنا بلاکراہت جائز ہے، کذا فی الدر والرد (کتاب الزکاة باب المصرف: ۳:۳۰۴ مکتبہ زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند