• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 42910

    عنوان: مصارف زكات میں افضل كون سے ہیں؟

    سوال: مصارف زکات کی عمومی ترجیح میں رشتہ داروں اور قرابت داروں کی بابت بتائیں کہ ان کو زکات دینا کیا زیادہ افضل ہے؟ اور اس کی شریعت نے کوئی تاکید کی ہے یا زکات دینے والے کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کس کو زکات دینا چاہتا ہے ؟ ۲۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ اپنے اقربا کے مستحق ہونے کہ باوجود جو شخص دوسروں کو زکات دے تو ازروئے حدیث نبوی اس کی زکات قبول ہوتی ہے نہ اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی طرف نظر فرمائے گا۔ کیا یہ درست ہے ؟ ۳۔ زکات کا اپنے شہر میں دینے کا بھی کوئی مسئلہ ہے ؟، اگر اپنے رشتے دار شہر سے باہر ہوں تو ان کو زکات دے سکتے ہیں یا نہیں اور افضل کیا ہے زکات کا اپنے رشتے داروں ،ماتحتوں اور اقربا کو دینا یا ان کے ہوتے ہوئے دوسرے مستحقین کو بھی زکات دے سکتے ہیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 42910

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 571-553/N=5/1434 (۱) جی ہاں! مستحقین زکاة میں سے جس کو بھی زکاة دی جائے زکاة ادا ہوجائے گی، البتہ بعض مستحقین زکاة کو زکاة دینا دوسروں سے افضل وبہتر ہوتا ہے، جب کہ کسی وجہ سے وہ دوسروں سے زیادہ استحقاق رکھتے ہوں یا انھیں دینے میں مزید کچھ اعمال خیر متحقق ہوتے ہوں جیسے رشتہ داروں کو زکاة دینا کیونکہ انھیں دینے میں صلہ رحمی بھی ہے، سخت ضرورت مند یا مقروض کو زکاة دینا کیونکہ وہ اوروں سے زیادہ اعانت کا محتاج ہے، مدارس کے طلبہ کرام کو زکاة دینا کیونکہ انھیں دینے میں علم دین کی نشر واشاعت میں تعاون کرنا بھی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا زکاة دہندہ انھیں اوروں پر مقدم رکھے۔ (۲) یہ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے جسے علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد (۳:۲۹۷) میں معجم اوسط للطبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے، البتہ اس میں ایک راوی عبدا للہ بن عامر اسلمی ضعیف ہے۔ حدیث میں صدقہ کا لفظ ہے جو زکاة کے علاوہ دیگر صدقات کو بھی شامل ہے، اور قبول نہ ہونے کا مطلب: ثواب نہ ملنا ہے۔ (۳) حولان حول سے پہلے ادائیگی زکاة کی صورت میں ایک شہر سے دوسرے شہر زکاة بھیجنا بلاکراہت جائز ہے اور سال مکمل ہوجانے کے بعد عام حالات میں زکاة منتقل کرنا مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ ہے، اور اگر دوسرے شہر میں اپنے مستحق زکاة رشتہ دار ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں یا دوسرے شہر میں کوئی مدرسہ ہو جہاں مستحق زکاة طلبہ علم دین حاصل کرتے ہوں تو سال مکمل ہونے کے بعد بھی اس شہر میں زکاة بھیجنا بلاکراہت جائز ہے، کذا فی الدر والرد (کتاب الزکاة باب المصرف: ۳:۳۰۴ مکتبہ زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند