• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 55756

    عنوان: بیوی کی ملازمت کی وجہ سے درپیش مسائل اور ان کے شرعی احکامات

    سوال: میری بیوی کی ملازمت کی وجہ سے گھر کا نظام برباد ہو چکا ہے اور منع کرنے کے باوجود وہ ملازمت نہیں چھوڑ رہی، جبکہ گھر کے اخراجات میں پورے کرتا ہوں۔ کیا اس کا نوکری کرنا جائز ہے اور اس کی آمدنی حلال ہے ؟ اور شوہر کی حق تلفی کر کے کمائی گئی دولت سے خریدے گئے زیورات حلال ہیں؟ ملازمت کی تھکاوٹ کی وجہ سے میری بیوی حق زوجیت ادا کرنے سے انکاری ہوتی ہے یا اتنی بے رخی سے ادا کرتی ہے کہ ذہنی سکون کی بجائے الجھن ہونے لگتی ہے ۔ میں پرسکون جماع کے لئے اتنا ترس گیا ہوں کہ اللہ معاف کرے کسی غیر محرم سے رجوع کرنے کی خواہش اکثر دل میں رہنے لگی ہے ۔ اگر خداناخواسطہ زنا سرزد ہوجائے تو میرے ساتھ ساتھ میری بیوی کے سر بھی گناہ نہیں جائے گا؟ 3: میری بیوی کئ بار کہہ چکی ہے کہ "اگر تمہیں میری ملازمت قبول نہیں تو میرا حق مہر ادا کرو اور مجھے طلاق دے دو"۔ لیکن میرے پاس اتنی جمع پونجی نہیں کہ اس کا حق مہر ادا کر سکوں، اور وہ میری اسی مجبوری کی وجہ سے مجھے بلیک میل کرتی ہے ۔ اگر اسے طلاق دے دوں تو کیا اس کا حق مہر قسطوں میں ادا کر سکتا ہوں؟

    جواب نمبر: 55756

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1428-1427/N=12/1435-U عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکل کر کہیں اورملازمت کرنا جائز نہیں اگرچہ ملازمت جائز ہو، آنے جانے وغیرہ میں پردہ شرعی اور دیگر احکام شرع کی مکمل رعایت رکھی جائے اور ملازمت کی وجہ سے شوہر کے حقوق میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ اور اگر ملازمت کی وجہ سے شوہر کے حقوق واجب متأثرہوتے ہوں یا آنے جانے وغیرہ میں پردہ شرعی اور دیگر احکام شرع کی مکمل رعایت نہ ہوتی ہو تو ایسی ملازمت بدرجہٴ اولیٰ ناجائز ہوگی اور اس میں متعدد معاصی کا ارتکاب ہوگا، البتہ اگر ملازمت جائز کام کی ہے تو اس کی تنخواہ اور اس سے خریدے گئے زیورات وغیرہ حرام نہ ہوں گے۔ پس صورت مسئولہ میں اس عورت پر واجب ہے کہ شوہر کی اطاعت کرتے ہوئے ملازمت چھوڑدے اور نیک وفرماں بردار بیوی بن کر شوہر کے جملہ حقوق ادا کرے۔ ”والذي ینبغي تحریرہ أن یکون لہ منعہا عن کل عمل یوٴدی إلی تنقیص حقہ أو ضررہ أو إلی خروجہا ن بیتہ“ (شامي ۵:۳۲۵ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) (۲) اس صورت میں اصل آپ گنہ گار ہوں گے اور آخرت میں سخت سزا پائیں گے اور کسی درجہ میں کچھ بیوی بھی گنہ گار ہوگی؛ کیوں کہ وہ ملازمت کرکے آپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کررہی ہے۔ (۳) اگر وہ راضی ہو تو طلاق کے بعد آپ اسکا مہر قسطوں میں ادا کرسکتے ہیں ورنہ طلاق کے فوراً بعد اس کا پورا مہر یکمشت ادا کرنا ہوگا، اور یہ حکم اس وقت ہے جب کہ اس کا مہر موٴجل ہو۔ اور اگر اس کا مہر معجل تھا تو وہ طلاق سے پہلے بھی آپ سے اپنا پورا مہر طلب کرسکتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند