• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 58737

    عنوان: كيا فاجرہ بیوی کو طلاق دینا شرعاً ضروری نہیں ہے؟

    سوال: عرض یہ ہے کہ میری حال ہی میں ۳۱ جنوری ۲۰۱۵ میں کو شادی ہوئی ہے اور میر ی منکوحہ کا نام رابعہ ہے، الحمد للہ، یہ حافظہ قرآن بھی ہے ، اب مسئلہ یہ ہے کہ مجھے تیسری رات سے اس کے سابقہ کردار پر شک تھا، میرے بیحد اصرار پہ اس نے یہ بتایاکہ اس کے کسی کزن(رشتہ میں بھائی ) کے ساتھ تعلق رہاہے، جس کا اس نے کھل کر اظہارنہیں کیا، البتہ یہ ضرور بتایا کہ غیر شعوری طورپر صرف ایک بار ایسا ہوا، حالانکہ اس کے مقام خاص سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ شادی سے پہلے ہی اپنا باکرہ پن گنواں چکی تھی، میں ذہنی طورپہ اس سے مطمئن نہیں ہوں،کیوں کہ اس کی عمر صرف ۲۲ سال ہے جب کہ اس کے مقام خاص سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس نے اچھا خاصا منہ کالا کروائی ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے ایسی عورت کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ؟ کیا میں اس کو طلاق دے کے کسی اور سے دوسرا نکاح کرلوں؟ یا اس کے سابقہ گناہ (جو کہ صرف میرے ،میرے والدین اور بہنوں کے علم میں ہے جب کہ اس کے گھر والوں کو ہم نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا) پہ پرداہ ڈال کے زندگی بسر کی جائے اور اس کو معاف کردیا جائے؟

    جواب نمبر: 58737

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 803-806/L=7/1436-U فاجرہ بیوی کو طلاق دینا شرعاً ضروری نہیں ہے، اس لیے اگر بیوی آئندہ توبہ کرکے ایسی قبیح حرکت نہ کرنے کا عزم کرے تو آپ اس کو معاف کرکے اس کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں، ایسے ماحول میں جہاں طلاق سے بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں بھلائی اسی میں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند