معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 147794
جواب نمبر: 14779401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 356-274/D=4/1438
غصہ کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، پس آپ نے جب تین سے زائد مرتبہ طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی دونوں کا رشتہٴ نکاح بالکلیہ ختم ہوگیا، مطلقہ تین ماہواری کے ذریعہ اپنی عدت پوری کرنے کے بعد آزاد ہوجائے گی اور آپ کے علاوہ کسی بھی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کی مجاز ہوگی، اگر وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلیتی ہے پھر دوسرا شوہر بعد نکاح کے ہمبستری بھی کرلیتا ہے اس کے بعد اگر طلاق دیدے یا ناگاہ بقضائے الٰہی فوت ہوجائے تو عورت دوبارہ اپنی عدت پوری کرنے کے بعد پھر نکاح جدید کرنے میں مجاز ہوجائے گی اس وقت اگر آپ کے ساتھ نکاح کرنے پر آپ دونوں راضی ہوجائیں تو نکاح ہوجائے گا اور واپس لانے کا یہی طریقہ ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میں نے طلاق سے متعلق ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب مجھے فتوی نمبر10592مجھے موصول ہوا۔ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ (۱)میں اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں چاہتا ہوں میں اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی ہے ،کیوں کہ وہ مزید بچے نہیں چاہتی ہے، وہ جنسی تعلقات کو پسند نہیں کرتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی ذہنی مفاہمت نہیں ہے۔(۲)میں اس کو اپنی بچی نہیں دینا چاہتا ہوں، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ اس کو اپنی طرح کی تعلیم دے گی۔ کیا میں اس سے اپنی بچی کو زبردستی لے سکتا ہوں، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے طلاق چاہتی ہے لیکن میں اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ اس کے طلاق کی ذاتی خواہش کی وجہ سے کیا اس کو اپنے تمام حقوق جیسے مہر اور بچے وغیرہ چھوڑ دینے چاہئیں؟ برائے کرم جلد جواب عنایت فرماویں۔
2446 مناظركيا نيم ديوانكى كى حالت مي طلاق واقع هوجاتى هي يا نهي (يعني جب بنده نفسياتي بيمارهو (معتوه كي حالت مين)اور ان بر دوري بهي اجاتى هون اور دورى كى دوران بيوى طلاق كا مطالبه كرين اور شوهر بغير هوش اور حواس كى طلاق ديدين اور ياد بهي نه هو .تو اس صورت مي طلاق واقع هوجاتي هي يا نهين قران اور حديث اور فقه كى روشني مي وضاحت كرين۔
6507 مناظرمیں نے اپنی بیوی کے رویہ سے تنگ آکر اسے
تین طلاق لکھ کر بھیج دی۔اب لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اور سنت کے مطابق یہ ایک
طلاق ہوئی ہے، کیوں کہ انھوں نے اہل حدیث کے علماء سے ایسا فتوی لیا ہے کہ ایک وقت
میں دی ہوئی متعدد طلاقیں ایک ہی تصور ہوتی ہیں۔ جب کہ ہم لوگ (میں اور میری بیوی
دونوں)حنفی ہیں۔ س فتوی کی بنیاد پر مجھ سے یہ کہا جارہا ہے کہ تم رجوع کرلو۔ میں
یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا واقعی ایک طلاق ہوئی او ررجوع ممکن ہے؟ اور اگر قرآن
اور سنت کے مطابق یہ ایک طلاق ہوئی ہے تو احناف اس کو تین طلاق کیوں شمار کرتے
ہیں؟